مجھے رشک آتا ہے ان پر جو مدینے جانے کی دعا مانگتے ہیں۔ بڑے پیارے لگتے ہیں وہ لوگ جو مدینے جانا چاہتے ہیں۔ وہ جو سنہری جالیوں کو چومنا چاہتے ہیں۔ وہ جو سبز گنبد کے سامنے کھڑے ہوکر درود پڑھنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تڑپ کبھی یک طرفہ نہیں ہوتی۔مجھے لگتا ہے جو لوگ سوہنے کے در کی تڑپ رکھتے ہیں تو وہاں بھی ان کا انتظار ہوتا ہوگا۔
مجھے یاد ہے بچپن میں جب کبھی
میں کوئی غلطی کرتا تھا تو اپنے بابا سے چھپتا پھرتا تھا۔ مجھے پکڑے جانے پر مار پڑے گی یا بابا ڈانٹیں گے ایسی بات نہیں تھی۔ اصل بات یہ تھی کہ میں اپنے من میں چور رکھ کر ان کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میرے دل میں کبھی خیال نہیں آیا کہ میں مدینے جاوں۔ مجھے کبھی تڑپ نہیں ہوئی۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ شاید میں مسلمان ہی نہیں ہوں۔ بھلا ایسا بھی کوئی مسلمان ہوگا جو مدینے نہیں جانا چاہتا ہوگا۔ میں نے مدینے جانے کی کبھی دعا نہیں مانگی۔ کبھی نماز کے بعد اجتماعی دعا میں امام نے کہا بھی کہ رب سب کو مدینے لے جائے تو میں بدبخت اس پر آج تک آمین نہیں کہہ سکا۔ کبھی مجھے مدینے جانا ہو یہ سوچ کر میرا بدن کانپنے لگتا ہے۔ میں خیال ہی خیال میں دیکھ رہا ہوں کہ کوئی مجھے کھینچ کر مدینے لے جانا چاہتا ہے
اور میں دہائی دے کر منتیں ترلے کر رہا ہوں کہ مجھے چھوڑ دیا جائے میں مدینے نہیں جاسکتا۔ مدینے جانے کا سوچ کر میری سانس اکھڑنے لگتی ہے۔ میں تصور ہی تصور میں دیکھ رہا ہوں کہ مجھے سبز گنبد کے سامنے لاکھڑا کیا گیا ہے اور میں لرزتا کانپتا اپنے ہی پسینے میں غوطہ زن چھپنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ سوہنے کے روضے کے سامنے کھڑے ہونا ہی یوم الحساب ہے۔ سورج سوا نیزے پر ہے اور زمن تپ کر تانبے کی بن گئی ہے۔ میرا غلیظ وجود اس پاک گنبد کے سامنے کھڑے ہونے لائق نہیں۔ میں اپنے وجود کی غلاظتوں میں لتھڑا کیسے سوہنے کے سامنے کھڑا ہوسکتا ہوں۔ جب حساسیت حد سے بڑھنے لگتی ہے تو میں اپنے گناہوں پر ایک ایک کر نگاہ دوڑانے لگتا ہوں۔ اپنے اپ سے عہد کرنے لگتا ہوں کہ آج کے بعد یہ یہ گناہ نہیں کرنا۔ کہیں جھوٹ کی ضرورت محسوس ہو تو سچ بول کر خود سے سوال کرتا ہوں کہ کیا اب میں مدینے جانے لائق بن گیا ہوں ؟؟؟ پھر ایک ایک کر سارے گناہ نظروں کے سامنے آنے لگتے ہیں۔ اپنا وجود غلیظ لگنے لگتا ہے اور شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہوں۔ سر جھکا کر نم آنکھوں سے زمین کو تکنے لگتا ہوں۔ بدن لرزتے لرزتے زمین پر ڈھے جاتا ہے اور اگلی بار پھر کسی نئی نیکی کی تلاش میں لگ جاتا ہوں جو میرے وجود کی ثقافتوں کو دھو کر مجھے اس قابل بنا دے کہ مدینے جاسکوں۔ مدینہ میری سوچ کے ہر گوشے میں اٹکا ہوا ہے۔ اس لیے نہیں کہ میں مدینے کا طالب ہوں۔ بلکہ اس لیے کہ میں مدینے جانے لائق نہیں ہوں۔ گتھی سلجھنے کی بجائے الجھتی ہی جارہی تھی۔ پھر ایک دن الجھی ہوئی ڈور کا سرا مرشد نے یہ کہہ کر سلجھا دیا کہ “ذکی پتر !! کچھ وہ ہوتے ہیں جنہیں مدینے کی تڑپ ہوتی ہے اور کچھ وہ ہوتے ہیں جنہیں مدینے والے کی تڑپ ہوتی ہے۔ دونوں کی وجہ سوہنے سے محبت ہی ہے لیکن پتر دونوں حالتوں میں فرق ضرور ہے۔ جو مدینے کی حقیقت کو پا جاتے ہیں نا پتر۔۔ کدی کدی سوہنا ان کو مدینے نہیں بلاتا۔ بلکہ آپ ان کے ہاں چل کر جاتا ہے اور بند آنکھوں نصیب کھل جاتے ہیں۔ نیکی کی تلاش میں لگا رہ پتر۔ تیری کوئی ادا پسند آگئی تو تیرا دل ہی مدینہ بن جائے گا۔ پھر جب چاہے سر جھکا کر چاتی مار لیا کرنا” صلی اللہ علیہ وسلم۔