جزبات قابو سے باہر تھے اور اپنے نفس کی خواہش پر میں سر جھکا کر چل رہا تھا.. میرے اندر کا شیطان اور بھیڑیا جسم کی مہکتی خوشبو کا طلبگار تھا…. کسی دوشیزہ کے جسم سے میں اپنے جسم کی پیاس بجھانے کیلئے تڑپ رہا تھا…. گھر پر بیٹھی میرے نکاح میں پابند ایک عورت میری منتظر تھی لیکن مجھے اس کے جسم سے نفرت سی تھی… میں راستے میں کسی جسم کی خاطر در بدر بھٹک رہا تھا اور میرے پاس میری آج کی دیہاڑی سے حاصل ہونے والی وہ رقم موجود تھی جس سے میرے گھر کا کچن اور دال روٹی چل رہی تھی…. لیکن میں سوچ رہا تھا کہ اگر آج میں بھوکا اور خالی پیٹ سو سکتا ہوں تو میرے بیوی بچے بھی تو فاقہ کاٹ سکتے ہیں……… تو آج کی دیہاڑی سے اپنے جسم کی پیاس بجھانے کیلئے تیار تھا…. راستے میں ایک بزرگ نے روک کر کہا کہ برخوردار چہرے پر لعنت برس رہی ہے ضرور کسی کبیرہ گناہ کی راہ پر نکلا ہے؟؟؟؟ تیرے چہرے سے تیری شیطانیت خوب ٹپک رہی ہے اور جسم سے نفس کی بو آ رہی ہے…. تو بابا جی…. میری مرضی میں جو کروں… آپ کون ہوتے ہیں مجھ پر فقرے کسنے والے؟ میں تو تیری رہنمائی کر رہا ہوں کہ شرم کر کس راہ پر نکل پڑا ہے….. بابا جی…. جسم کی آگ میں جل رہا ہوں…. بجھانے کا سامان تلاش کر رہا ہوں….
شادی شدہ ہے؟ ہاں بابا جی… تین بچوں کا باپ بھی ہوں… کمبخت…. بے غیرت، منحوس…. شرم کر… کسی چلو بھر پانی میں ڈوب کر مر جا… حلال ہوتے ہوئے حرام کا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے؟ “مجھے اپنی بیوی سے بدبو آتی ہے… گھن ہوتی ہے… عجیب سی نفرت پیدا ہوتی ہے اس کا بجھا بجھا سا چہرہ دیکھ کر اور تھکا تھکا سا جسم دیکھ کر میرے جزبات مر جاتے ہیں”……. تیرے جیسے مردوں کو حلال میں بو آتی ہے… اور حرام میں خوشبو…. جو گھر کی عورت چولہے کی تپش میں تیری اور بچوں کی خاطر جل رہی ہے… جس کا حسن غربت کے کیچڑ میں ڈھل رہا ہے…. جس کے ہاتھ کی لکیریں برتن اور کپڑے دھو دھو کر گھس رہی ہیں… جس کے نقوش مٹ رہے ہیں… جس کی مسکراہٹ اور ہنسی مفلسی اور تیری خدمت اور غلامی کرتے کرتے بجھ رہی ہے…. جس کا جسم تیرے گھر کی حفاظت کرتے کرتے تھکن سے چکنا چور ہو رہا ہے… جس کی ادا نظر اندازی کی تپش سے دم توڑ رہی ہیں…. جس کا چہرہ چولہے کی آگ میں جھلس رہا ہے… جس کی آنکھیں تیرے خواب بنتے بنتے اور سب کچھ بہتر ہوجائے گا ایک دن… اس دن کا انتظار کرتے کرتے اس کی آنکھوں کی بینائی مدھم پڑ رہی ہے… ایسی عورت سے بو آتی ہے.؟؟؟؟ .. کبھی بد کرداری کے الزام کبھی طعنے…
کبھی زبان درازی کے فقرے….. اپنا گھر بار، والدین، بہن بھائی، دوست احباب، رشتے ناطے اپنا بچپن اپنا محلہ اپنا شہر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تیرے نکاح میں خود کو تیرے تابع کیا ہے…. اپنے سارے خواب توڑ کر تیرے خوابوں کو اپنے خواب تسلیم کیا ہے…. تیری اولاد کو نو مہینے تک اپنے پیٹ میں رکھ کر اپنا لہو پلا پلا کر وہ خود ڈھانچہ بنی ہے… سارا دن تیری، تیرے گھر والوں کی تیرے رشتے داروں کی باتیں سنتی ہے….. اپنی تھکن، اپنے دکھ درد اپنی تکالیف کو بھول کر وہ بستر پر تجھے مسکرا کر ملتی ہے…. کبھی اس کی مسکراہٹ کو نچوڑ کر دیکھ تجھے آنسوؤں کا دریا ملے گا…… بےغیرت تجھے ایسی عورت سے بو آتی ہے؟ تجھے حرام کی لزت نے اندھا کر دیا ہے… تیرے کان اس کی چیخ نہیں سن سکتے… تیری آنکھ اس کے خواب پڑھنے کے قابل نہیں ہے. تیرا ناک اس کے جسم سے آتی حلال رشتے کی خوشبو محسوس نہیں کر سکتا…. لا علاج ہے تو…… جا کر صدقہ کر اور خدا سے اپنی ہدایت کی دعا مانگ…
