اگر کسی شخص نے ہاسٹل کی زندگی نہیں گزاری تو سمجھو وہ زندگی کے ایک بہت بڑے لطف سے رہ گیا۔ ہاسٹل کے کھانے اور سپلیاں ”گریوی“، رمضان شریف میں کنٹین پر ہجوم، ایک بندے کا کمرہ اور آٹھ کا قیام، وارڈن کے چھاپے اور غیرقانونی رہائشیوں کے اسکو مشورے ، بیت الخلا اور اس میں داخل ہوتے ہی گالیاں دیتے باہر نکلنا، غرضیکہ کیا کیا یاد کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے قصبے کے ہمارا ایک دوست بخاری پنجاب یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھا اور ہم تین چار دوستوں کا ادھر شام کی کلاسز میں داخلہ ہوگیا لیکن ہاسٹل نہیں ملا تو اس نے کہا پریشانی کی بات ہی نہیں، تم لوگ میرے کمرے میں آجاؤ۔ اس کے پاس تین لوگوں والا پہلی منزل پر کمرہ تھا اور ہم سات بندے باآسانی اس میں سما گئے۔ کبھی کبھار ہمارے قصبے سے جو بھی لاہور آتا وہ بھی ہمارے ساتھ ہی قیام کرتا۔ اس وقت پی یو جیل میں تبدیل نہیں ہوئی تھی اور ہم اور ہمارے مہمان باآسانی چاروں طرف سے ہاسٹلز میں داخل ہوسکتے تھے۔ وقت کے ساتھ میرے اور میرے دوستوں کے چھوٹے بھائی بھی کچھ عرصے کے لئےادھر ہی آگئے۔ میس روم ۔******** ہاسٹل میں رہنے والوں کے نزدیک اور خاص طور پر ہم جیسے ایوننگ کلاسز والوں کے لئے سب سے اہم جگہ میس ہوتی تھی۔ ہم ایوننگ کلاس والے ساری رات جاگتے تھے اور ساڑھے گیارہ بجتے ہی میس کے سامنے ”بھوکے کرگسوں“ کی طرح منڈلانے لگتے۔ میس کے ملازمین ہمیں دیکھتے ہی مسکراتے کہ اناج کے دشمن آگئے۔ جیسے ہی پلیٹیں اور دیگچے کاؤنٹر پر آجاتے ہم سب کے لئے دروازے کھل جاتے اور ہم اندر میز بجانے شروع۔۔۔۔اکثر چھٹیوں میں میس ٹھیکے پر چلے جاتے یعنی موقع پر پیسے دیں اور تین چار کھانے بنتے تھے۔ ہم دال، سبزی اور چکن کا آرڈر دے کر روٹی کے لئے بیٹھ جاتے۔ جب تک اور طلباء نہیں آجاتے تھے ہم ”بھوکی ڈائنیں“ روٹی والے کو آگے نہیں جانے دیتے۔ سالن کی پلیٹیں اچھی طرح صاف کرکے شوربے کا آرڈر دیتے اور ویٹر بغور جائزہ لینے پر بھی نہ جان پاتا کہ پلیٹ میں تھا کیا۔ پھر قیمے کی سپلی، چاول اور اسکے بعد تانتا بندھ جاتا۔ ایک دفعہ ہماری پوری ٹیم حاضر تھی اور میس والے چاچا جی ہماری رفتار دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک پوری حاضری یعنی ایک فل پلیٹ سالن کی دے دی۔ اب وہ لوگ کہاں۔۔۔۔۔ ویسے الحمداللہ اکثر ہم سب سے پہلے میس میں داخل ہوتے اور آخر میں نکلتے تھے۔۔۔۔ میرا چھوٹا بھائی جو صبح کے وقت ایک پرائیویٹ کالج میں پڑھنے جاتا تھا وہ صبح کے وقت اٹھ کر کنٹین کی طرف منہ کر کرکے نعرہ مارتا ”اک چا تے دو توس“ (ایک چائے اور دو توس) اور نہانے کے لئے چلاجاتا۔ اگر بدقسمتی سے کنٹین والا چائے اور توس اسکے کمرے میں آنے سے پہلے رکھ جاتا تو ہم میں سے کوئی نہ کوئی نشئی اٹھ کر اسکے توس اور چائے چڑھا جاتا اور وہ بے چارہ برابھلا کہتا بھوکے پیٹ کالج کو نکل جاتا۔ وارڈن کا چھاپہ اور آؤٹ سائیڈرز ۔************************** کبھی رات کو اچانک شور اٹھتا کہ ”چھاپہ“ اور وارڈن صاحب بہ نفس نفیس چوکیداروں اور ہاسٹل کے دوسرے لڑکوں کے ساتھ ہاسٹل کے راؤنڈ کو نکلتے۔ کبھی کبھار ہم کمرے میں ہوتے اور دم سادھ لیتے۔ ہم نے انٹرنل لاک لگوایا ہواتھا تا کہ کسی ”ناپسندیدہ“ شخصیت کے لئے دروازہ نہ کھولنا پڑے۔ ”مجھے پتا ہے تم لوگ اندر ہو، دروازہ کھولو!“ وارڈن صاحب باہر کھڑے وارننگ دیتے۔۔ ”سر جی اندر ہی ہیں!“ چوکیدار اقبال عرف بالا بولتا۔ ”خبیث اس دفعہ تجھے پیسے لیٹ ہوگئے تو بھونکنے لگ گیا“ ہم پیچ و تاب کھاتے۔ ”نہیں سر جی وہ لوگ شائید فلم دیکھنے گئے ہیں اور میرے خیال میں کمرہ چھوڑ گئے ہیں۔ اب تو صرف باؤ ایاز ہی رہتے ہیں ادھر“ یہ بابا اسماعیل دوسرا چوکیدار تھا جس کو کل ہی سو کا نوٹ دیا تھا۔ ”جی سر! اب تو صرف وہ کبھی کبھار ملنے آتےہیں“ ہمارا ساتھ کے کمرے والا جگر شیرازی گواہی دیتا۔ ”او جیو میرے شیر“ ہم دل ہی دل میں سراہتے۔ دوسری گیلری میں لڑکے بھاگتے نظر آتے تو یہ گروپ اس طرف چلا جاتا۔ کبھی کبھار ہمیں پہلے پتا لگ جاتا اور ہم بھی وارڈن صاحب کے ساتھ دورہ فرماتے اور چُن چُن کے اپنے مخالفین کے کمروں کا بتاتے اور دروازے بجا بجا کر انکا خون خشک کرتے۔ ڈاکٹرز ہاسٹل کا بدمعاش ۔******************** ہمارے ایک ڈاکٹر دوست بہزاد کا ”اے آئی ایم سی ۔ علامہ اقبال میڈیکل کالج“ میں ”کیوبیکل“ (اکیلا سنگل ) کمرہ ہوتا تھا اور جب پی یو (پنجاب یونیورسٹی) کے ہاسٹلز پر چھاپے پڑتے یا پھر مہمان آجاتے تو ہم سب ( سات آٹھ لڑکوں پر مشتمل ”آؤٹ سائیڈرز“) اس کے کمرے میں آجاتے۔ ان دنوں پی یو کے ہاسٹلز کے گرد باؤنڈری نہیں بنی تھی اور ہم ساری رات کہیں سے بھی اندر گھس سکتے تھے۔ اس نے کمرے میں خاص اس ہی مقصد کے لئے چارپائی رکھی ہوئی تھی۔ ہم میں سے دو بندے چارپائی پر اور باقی تین یا چار اپنی ٹانگیں چارپائی کے نیچے کرکے سوجاتے اور ہمارا بے چارہ ڈاکٹر دوست ڈیوٹی سے آکر میز کے نیچے سو جاتا۔ ایک دفعہ وہ خوش خوش ہمارے پاس آیا اور بولا ”خوشخبری سنو! مجھے ڈاکٹرز ہاسٹل میں ایک کمرہ مل گیا ہے جو بہت بڑا ہے اور تم سب کھلے ہوکر اس میں سو سکتے ہو“ ہم نے یہ سنتے ہی خوشی سے اس کو کندھوں پر اٹھا لیا اور خوب نعرے لگائے۔ ”لیکن! ایک مسئلہ ہے“ اس نے سنسنی پھیلائی۔ “کیا مسئلہ!“ ہم سب بیک زبان بولے۔ ”یار ادھر اس کمرے میں ایک بندہ پچھلے دس سال سے رہ رہا ہے اور سنا ہے خالی کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ میں نے آج اس سے ملنا ہے“ ڈاکٹر صاحب بولے۔ پھر ہم سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور پلان ترتیب دیا۔ رات کو میں اور بہزاد اس کمرے میں گئے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کہاں ریڈ کارپٹ، ونڈو اے سی، ڈبل بیڈ اور صوفہ اور کہاں ہمارا پی یو کے ہاسٹل کے کمرہ اور اس میں لٹکے پنکھے کی ہوا جو نہ جانے کہاں جاتی تھی۔ باوجود اسکے ہم نیکروں اور بنیان میں ملبوس رہتے تھے لیکن پھر بھی پسینہ خشک نہیں ہوتا تھا۔۔ جولائی کا مہینہ تھا اور کمرہ یخ بستہ۔۔۔۔ یہ کمرہ تو ہر حال میں لینا ہے پتر۔۔۔۔میں نے دل ہی دل میں سوچا۔۔۔۔۔میرے پاس بس ایک شاپر تھا اور ڈاکٹر کے پاس ایک بیگ۔۔۔۔ ادھر وہ ڈاکٹر اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ رہ رہا تھا۔ حال چال پوچھ کر وہ کہنے لگا کہ ”مجھے علم ہے کمرہ آپ کو الا ٹ ہوا ہے لیکن میں دس سال سے ادھر ہی رہ رہا ہوں اور اسلئے بہتر ہے کہ آپ لوگ کوئی اور کمرہ دیکھ لیں“ ”مجھے اپنے ہوسٹل کا کمرہ خالی کرنا پڑا ہے اور کوشش کروں گا کہ کوئی اور کمرہ جلد از جلد مل جائے۔ فی الحال میں اور میرا کزن ادھر رہ لیں؟ مجبوری ہے!“ ڈاکٹر بہزاد نے التجا کی اور میں نے بھی انتہائی ”مسکین“ سی شکل بنانے کی پوری کوشش کی۔۔۔ ”ٹھیک ہے زیادہ دن نہیں اور چابی بنوالو تم لوگ“ وہ اپنی طرف سے بڑی فیاضی کا مظاہرہ کرتے بولا۔۔۔ صبح بہزاد ہاسپٹل چلا گیا اور میں دیر سے اٹھ کر الماری کھول کر کپڑے نکال رہا تھا کہ آواز آئی ”شور نہ کریں“ ـ۔۔۔ مڑ کر دیکھا تو اس ڈاکٹر کا چھوٹا بھائی تھا۔۔۔۔۔ ”سوری جناب!“ میں نے انتہائی معقولیت سے جواب دیا۔ ہفتے کا دن تھا میں نے اور بہزاد نے سہ پہر کو سیدھے یادگار سبزی منڈی جاکر ایک عدد آموں کی پیٹی لی اور اپنے قصبے کے لڑکوں کو دعوت ”آم“ دے دی اور ساتھ ہی دوسرے ہاسٹل کے باسیوں کو۔۔۔۔۔ وہ ڈاکٹر شام کسی کلینک میں ڈیوٹی کرتا تھا اور لیٹ نائیٹ آتا تھا اور اسکا بھائی بھی ۔۔۔۔ شام کو حمید ”گھوڑا“ اور بشیر ”ڈنگر“ تو کمرے کو دیکھتے ہی آوٹ ہوگئے اور قلابازیاں کھانی شروع کردیں۔ میں اور میرے باقی ہاسٹل فیلوز بھی اے سی کو فل کرکے ”فل ٹائم ماحول“ بنا کر آموں سے بھرے ٹب کو عین کارپٹ کے درمیان میں رکھے آموں کی دھجیاں بکھیر رہے تھے۔ ”یارا کل چھٹی ہے! تو کل سارا دن میں تو ادھر ہی ہوں“ حمید ”گھوڑا“ تیسرا آم ہڑپ کرکے چوتھے کی طرف ہاتھ بڑھاتے بولا۔ “تو میرے کونسے بچے رو رہے ہیں“ خالد ”شرلی“ بولا۔ ”یاروں! ہم سب کل کا دن مری یعنی اس کمرے میں گزاریں گے“ میں نے سب کو جھپا مارتے کہا اور کمرہ ہمارے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔ رات کو تقریباً گیارہ بجے اس ڈاکٹر کا چھوٹا بھائی آیا تو پہلے کمرے کے باہر درجن سے زیادہ جوتے دیکھ کر گھبرا گیا اور پھر ڈرتے ڈرتے اندر جھانکا تو اس وقت طاہر ”گینڈا“ دھمال ڈال رہا تھا اور ہم سب اسکا ساتھ دے رہے تھے۔ اس کی تو سٹی گم ہوگئی اور پچھلے قدموں باہر۔ خیر بہزاد اسکے پیچھے گیا کہ دوست آئے ہوئے ہیں اس لئے کسی اور کمرے میں سوجاؤ۔ اگلی صبح اس کمرے کو اپنے نام ”تاقیامت“ سمجھنے والا ڈاکٹر آیا تو بہزاد کمرے میں نہیں تھا اور جب اس نے کمرے میں کچھ ”قوی الجثہ“ اور کچھ ”نشئی“ مخلوقات کمرے میں پڑی دیکھی۔ ساتھ ہی آم کے چھلکے کارپٹ پر بکھرے دیکھ کر اس نے شرافت سے اپنا سامان سمیٹنا شروع کردیا۔ اور ایک دن کے اندر اندر کمرہ خالی کردیا۔ تو دوستوں اس طرح ہم نے بہت ”شرافت“ اور بغیر ”لڑائی جھگڑے“ کے انتہائی معصومیت سے کمرہ حاصل کیا۔ ہماری بدمعاشیاں اور رت جگے ۔*********************** ایک دفعہ میرا کزن ملنے آیا ہواتھا۔ ہم نے چائے بسکٹ اسکے لئے منگوائے۔ چائے پینے کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک کپ کے کنارے ٹوٹے ہوئے تھے۔ میں کپ اٹھا کر دیوار پر مار کر توڑ دیا۔ میرے دوست کے چھوٹے بھائی نے دوسرا کپ چیک کیا اور اسکو بھی دیوار پر مار توڑ دیا کہ میں سر پھاڑوں گا کہ ٹوٹےکپوں میں چائے دیتا ہے۔ میرا کزن سہم سا گیا۔ لیکن ہماری قسمت خراب کہ کنٹین والے کا بچہ ساتھ والے کمرے میں چائے دینے آیاتو ہمارا بھی دروازہ کھٹکھا دیا۔ ہم نے برق رفتاری سے پچھلے ہفتے والے دو کپ میز کے نیچے سے نکالے اور ”چینک“ سے بچی کھچی چائے ان میں ڈال کر واپس کردیے۔ میرے کزن کی جان میں جان آئی اور وہ بولا ”یار میں سمجھا کہ تم سچ مچ اتنے بدمعاش ہوگئے ہو اور اب کنٹین والے کی خیرنہیں“۔۔۔۔۔۔۔ ویسےایک بات آج تک ہمیں سمجھ میں نہیں آئی کہ ”بھولے بھالے“ لوگ بیت الخلا میں جاکر کموڈ کے باہر گندگی کیوں پھیلاتے تھے۔ یقین کریں بعض اوقات ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولتے کہ گند ہی نا مارا ہو۔ تنگ آگر ہماری لائین والے کمروں والوں نے ایک ”بیت الخلا“ میں لاک لگوالیا تھا۔ لیکن آئے دن دوسرے طلبا سے جھگڑا رہتا ہے کہ ہمیں بھی چابی دو۔ میرے نشئی دوست سارا دن سوتے رہتے لیکن شام کو اپنے ڈیپارٹمنٹس سے آکر ان میں چمگادڑوں کی روحیں حلول کرجاتیں اور میری واپسی پر وہ پوری طرح چاق و چوبند ہوتے۔ ہمارے قصبے سے جو بندہ آتا وہ لازمی ہمارے ڈیرے پر حاضری دینا فرض سمجھتا۔ میں کلاسز لیکر اور ایک دو ٹیوشنز پڑھا کر کمرے میں پہنچتاتو وہ پوری طرح چاک و چوبند ہوتے۔ “چل یار کھانا کھانے“ عارف ”غلیل“ نعرہ مارتا۔ اور پھر ہماری پیدل مارچ شروع ہوجاتی۔ کبھی مزنگ کے پراٹھے تو کبھی ریگل چوک کے پراٹھے اور کبھی لکشمی میں کڑاہی اور ٹکییاں۔۔۔۔۔۔ ہم ہمیشہ پیدل یا لفٹ لیتے سفر کرتے تھے اور واپسی بھی اس ہی طرح ہوتی تھی اور مجال ہے جو تھکان ہوتی ہو۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد، میں اس وقت تک ہاسٹل میں رہا جب تک ہمارے قصبے کا آخری لڑکا ہاسٹل سے چلا نہیں گیا۔ اب پتا نہیں غیر قانونی طلبا ادھر رہ پاتے ہوں گے کہ نہیں؟ میں ایک دفعہ ادھر گیا لیکن گیٹ کے پاس چوکیداروں نے مجھے روکا لیکن مجھے ادھر کسی رہائشی کا پتا تھا اسلئے ہاسٹل نمبر اور کمرے کا بتا کر کیفے ٹیریا، اور شاپنگ مال پھرتا رہا لیکن وہ سب کچھ بدلا ہوا لگا مجھے۔۔۔۔ہوسکتا ہے طلبا اس ہی طرف لطف اندوز ہوتے ہوں لیکن میرے پاس بس اب میرے پرانے ہاسٹل کی یادیں ہیں۔۔۔۔۔
