وہ پھٹے پرانے لیکن صاف ستھرے لباس میں ملبوس اس کمزور عورت کو مسلسل دیکھے جا رہی تھی۔ اس کے جھری زدہ چہرے پر درد کی انگنت کہانیاں تھیں۔ اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سوجی ہوئی تھیں۔لوگوں کے اس ہجوم میں کھڑی وہ ہر آنے جانے والے سے بڑی لجاجت سے مدد مانگ رہی تھی۔ لیکن کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو جھٹک کر آگے بڑھ جاتا۔ وہاں قریب تین گھنٹے سے وہ مسلسل وہیں کھڑی ہوئی تھی۔
تھوڑی دور کھڑی بھکارن اس سارے منظر کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے رحم بھری نظروں سے اس بڑھیا کو دیکھا۔ اگر چہ وہ خود ایک بھکارن تھی۔ اس کے کپڑوں پر جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ الجھے ہوئے بال، سر پر پھٹا ہوا آنچل، نہ پیروں میں جوتے اور نہ ہی ڈھنگ کا کشکول۔ لیکن وہ اس بوڑھی عورت کو دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی۔ مگر اس بھکارن کا ٹوٹا پھوٹا کشکول نوٹوں سے بھرا ہوا تھا کیوں کہ وہ ایسی درد بھری سدا لگاتی کہ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو بھیک دینے کے لئے آگے بڑھ جاتے۔ اس طرح چند سیکنڈ میں ہی اس کا کٹورا نوٹوں سے بھر جاتا تھا۔ بہت سے لوگ تو بھیک دے کر چلے جاتے لیکن کچھ منچلے اور رنگین طبیعت کے لوگ اس کے میلے کچیلے کپڑوں میں پوشیدہ جوان جسم کو آنکھوں آنکھوں میں تاڑتے رہتے تھے۔ پہلے تو شروع شروع میں اسے سخت پریشانی ہوئی لیکن پھر وہ دھیرے دھیرے اس گندی اور ہوس بھری نظروں کی عادی ہوگئی۔
آج اسے اس بوڑھی عورت کو دیکھ کر کچھ ہوا تھا تھا اس کے قدم بے اختیار اس بوڑھی عورت کی طرف اٹھنے لگے جہاں وہ بوڑھی عورت ایک بندگان کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی تھی وہ رنج و ملال کی تصویر بنی اپنی سوچوں میں مصروف تھی۔
اماں جی، اس نے پکارا تو بڑھیا چونک کر اس کو دیکھنے لگی جہاں وہ بھکارن عورت ہاتھ میں کشکول پکڑے ہوئے اس کے سامنے تھی۔ بڑھیا نے کہا جاؤ بی بی معاف کرو میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کوئی رقم نہیں ہے میں تو خود ایک سوالی ہوں۔ یہ کہتے ہوئے بڑی بی رونے لگی۔ بھکارن بوڑھی عورت کے پیروں میں بیٹھ گئی۔ کہنے لگی اما جی! تم سے کچھ مانگتی نہیں ہوں میں تو وجہ جاننا چاہتی ہوں، جس کی وجہ سے تمہیں اپنے گھر سے نکل کر یوں ہاتھ پھیلانا پڑا۔ کیوں ان لوگوں کے آگے اپنے ہاتھ پھیلا رہی ہو جنہیں تمہیں بوڑھی آنکھوں میں چھپا ہوا کرب اور ضرورت نہیں دکھائی دیتی۔ اس عمر میں خود کو ٹھوکروں میں کیوں ڈال رہی ہو۔ بھکارن کے لہجے میں اتنی اپنائیت تھی کہ بڑھیا پھر رونے لگی۔ پھر کچھ دیر میں اس نے کہا۔ بیٹی میں ایک بیوہ عورت ہوں۔ غریب ہوں۔ میرا اس دنیا میں سوائے دو چھوٹے چھوٹے یتیم پوتوں کے کوئی اور نہیں ہے۔ میرا ایک بیٹا تھا جو ایک حادثے میں اس دنیا سے چل بسا۔ بیٹے کے جانے کے بعد بہو کے گھر والے اسے لے گئے اور اس کی کہیں اور شادی کر دی۔اور بچوں کو میرے حوالے کر دیا میں اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ایک کوٹھی میں کام کر رہی تھی، لیکن آج ایک معمولی سی غلطی پر ان لوگوں نے مجھے خوب ذلیل کیا اور کام سے نکال دیا۔ مجھے یہ فکر ہے کہ گھر پہ بچے بھوکے ہوں گے جس کی وجہ سے یہاں لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا رہی ہوں تاکہ کچھ کھانے کا انتظام کر سکوں۔ یہ کہہ کر بڑھیا اور شدت سے رونے لگی اس بار بھکارن بھی اس کے ساتھ رو رہی تھی۔ پھر اس نے بے اختیار اپنے کشکول میں سے سارے پیسے نکال کر بُڑھیا کو دے دیے اور یہی نہیں بلکہ اپنے پلو میں بندھے ہوئے اندرا ہزار روپے میں بڑھیا کو دے دیے اور کہنے لگی اماں انکار نہیں کرنا یہ بھی نہیں ہے بلکہ ایک بیٹی کی طرف سے ماں کے لیے تحفہ ہے۔
بڑھیا نے خوشی اور شکر کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اس بھکارن عورت کو دیکھا جو بظاہر تو ایک مانگنے والی تھی لیکن اس کا دل کتنا غنی تھا۔ بڑھیا اس بھکارن کو دعائیں دیتی ہوئی وہاں سے رخصت ہو گئی۔
