کل 14اگست ہے، پوری قوم یومِ آزادی منائے گی، ملی نغمے گائے جائیں گے، وطن کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے دعائیں کی جائیں گی مگر نغموں، دعاؤں اور تقریبات میں لوگ یہ بات بھول جائیں گے کہ بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کس طرح کا پاکستان چاہتے تھے، ان کی نظر میں یہ ملک کیسا ہونا چاہئے تھا؟ یہ جاننے کے لئے ہمیں قائداعظم کی تقریروں، تحریروں اور باتوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ ہمارے معاشرے میں تعصبات کے شعلے کیوں بلند ہوئے، ہماری زندگیوں میں بددیانتی کیسے آئی، ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے کیوں رہ گئے؟ مثلاً قائد اعظم کی ایک یادگار تقریر ہے، یہ خطاب 1977تک ریڈیو پاکستان سے سنایا جاتا رہا مگر پچھلے 44برسوں سے کسی نے یہ تقریر نہیں سنی، شاید ایسا اس لئے کیا گیا کہ ملک و قوم کو تعصبات کی آگ میں جھونکنے والوں کے نزدیک اس تقریر کا خاتمہ بڑا ضروری تھا کیونکہ یہ تقریر تعصبات کے خلاف تھی، یہ تقریر نفرتوں کے خلاف تھی، قائداعظم کی اس تقریر میں صرف اور صرف محبت کا درس دیا گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح ریاست کے مستقبل سے متعلق فرمانے لگے ’’آپ سب آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لئے، آپ سب آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے اور کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لئے آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو مملکت کا اس سے کوئی سروکار نہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی معنوں میں نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی معنوں میں، وہ ایک ہی ریاست کے برابر کے شہری ہوں گے‘‘۔ قائداعظم کی اس تقریر کا صاف مطلب یہی تھا کہ ریاست پاکستان میں کوئی شخص بھی مذہب یا فرقے کی بنیاد پر ممتاز نہیں ہوگا بلکہ ریاستِ پاکستان کے نزدیک تمام فرقوں اور مذاہب کے لوگ برابر ہیں، ریاست انہیں ایک ہی نظر سے دیکھے گی۔ حیرت ہے قائداعظم کے اِس فرمان کے باوجود پاکستان کی ریاست میں مذاہب اور فرقوں کی بنیاد پر نفرتوں کا زہر گھول کر تعصبات کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔ اس ملک میں مسلمان اکثریت میں ہیں مگر مسلمانوں کے ہاں فرقہ واریت کی آگ ہے، یہ آگ ملک میں نفرت اور خون کی صورت وحشت بن کر گلیوں میں پھر رہی ہے، موت کا پیغام بانٹ رہی ہے۔ ایک دن ایک روحانی شخصیت کہنے لگی کہ ’’ہر شہر میں ایک مذہب روڈ ہونا چاہئے اس سڑک پر مسجد، مندر، گوردوارے اور چرچ سمیت دیگر عبادت خانے ہونے چاہئیں جس کی جہاں مرضی ہو وہ وہاں عبادت کرے‘‘۔ افسوس ہم نے قائداعظم کی زندگی کے تمام اسباق بھلا دیے، ہم نے قائداعظم کے بتائے ہوئے راستوں کو فراموش کیا۔ اِس کی بڑی وجہ ہمارے سیاسی و مذہبی رہنما ہیں حالانکہ قائداعظم کے ساتھ جو سیاست دان تھے وہ کرپشن سے پاک تھے، قائداعظم کے ساتھ مولوی نہیں تھے بلکہ صوفیاء تھے۔ صوفی ہمیشہ محبت کا درس دیتا ہے، صوفیائے کرام نے اس خطے سے نفرتوں کو ختم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ قائداعظم کہتے تھے جس وزیر نے بھی چائے پینی ہو وہ گھر سے پی کر آئے یا پھر واپس گھر جاکر پیے، قوم کا پیسہ قوم کے لئے ہے، وزیروں کے لئے نہیں۔ اس حکم پر سختی سے عمل ہوا، جب تک قائداعظم اقتدار میں رہے کسی وزیر نے دوران اجلاس چائے کا مطالبہ نہیں کیا، کابینہ کے اجلاسوں میں سادہ پانی پیش کیا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ گورنر جنرل ہاؤس کے لئے ساڑھے اڑتیس روپے کا سامان منگوایا گیا تو قائداعظم نے حساب منگوا لیا، پتہ چلا کہ اس میں چند چیزیں محترمہ فاطمہ جناح کے لئے ہیں اور دو چیزیں (یعنی قائداعظم) کے لئے ہیں۔ اس پر محمد علی جناح نے حکم دیا کہ جو چیزیں فاطمہ جناح کے لئے ہیں وہ پیسے ان کے اکاؤنٹ سے کاٹے جائیں اور جو چیزیں میرے لئے ہیں وہ رقم میرے اکاؤنٹ سے کاٹی جائے اور آئندہ اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ کسی بھی فرد کے لئے سرکاری خزانے سے چیزیں نہیں آئیں گی۔ قائداعظم کی شخصیت میں بلا کا اعتماد تھا، برطانیہ کا سفیر ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ برطانوی بادشاہ کا بھائی ڈیوک آف السٹر پاکستان کے دورے پر آ رہا ہے، آپ اسے خوش آمدید کہنے ایئرپورٹ پر چلے جائیں۔ اس پر قائداعظم نے ہنس کر کہا ’’میں تیار ہوں لیکن جب میرا بھائی لندن جائے گا تو پھر اس کے استقبال کے لئے برطانوی بادشاہ کو بھی ایئرپورٹ آنا پڑے گا‘‘۔ ایک دن قائداعظم کے اسٹاف نے ان کے سامنے ایک وزیٹنگ کارڈ رکھا۔ قائداعظم نے کارڈ کو پھاڑ کر پھینک دیا اور فرمایا ’’اسے کہو آئندہ مجھے شکل نہ دکھائے‘‘۔ کارڈ والا شخص قائداعظم کا بھائی تھا، اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے اپنے نام کے نیچے برادر آف گورنر جنرل لکھوایا ہوا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ قائداعظم کی زندگی کے آخری ایام زیارت میں بسر ہوئے۔ وہاں سخت سردی تھی تو ان کے ایم ایس کرنل الٰہی بخش موزے خرید کر لائے، جب پیش کئے تو پسند فرمائے اور ساتھ ہی قیمت پوچھی تو کرنل نے کہا سر! اس کی قیمت دو روپے ہے۔ قائداعظم ناراض لہجے میں بولے ’’کرنل یہ تو بہت مہنگے ہیں‘‘ کرنل ہنسا اور کہنے لگا کہ سر! یہ تو آپ کے اکائونٹ سے خریدے ہیں۔ اس پر قائداعظم نے فرمایا ’’میرا اکاؤنٹ بھی تو قوم کی امانت ہے، ایک غریب ملک کے سربراہ کو اتنا عیاش نہیں ہونا چاہئے‘‘۔ موزے لپیٹے اور کرنل سے کہا کہ اسے واپس کر آئو۔ قائداعظم کی زندگی کے ایسے درجنوں واقعات ہیں مگر ہم نے ان کی زندگی کے سنہرے اصولوں میں سے کوئی بھی نہیں اپنایا۔ کل ہم جشن آزادی تو منائیں گے مگر کسی کو پاکستان بنانے کے مقاصد یاد نہیں رہیں گے۔ بقول کلیم عثمانی نظم و ضبط کو اپنا میرِ کارواں جانو وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو
