Home / آرٹیکلز / سِلور کا کٹورا

سِلور کا کٹورا

سلور کا کٹورا سیڑھیوں میں پڑا تھا۔۔۔! میں نے اُٹھا کر باورچی خانے میں رکھ دیا۔۔۔! اگلے دن وہ سلور کا کٹورا پھر سیڑھیوں میں پڑا تھا۔۔۔! میں نے پھر اُٹھا کر باورچی خانے میں رکھ دیا۔۔۔! کتنے دن یہ سلسلہ چلتا رہا صاحب جی۔۔۔! کوئی سات آٹھ دن گُزرے تھے چھوٹی دُلہن صاحبہ نے سارے ملازموں کو لین حاضر کر لیا۔۔۔! لو جی فیر کیا بتاؤں کِنّیاں چِڑکیاں پڑیں صاحب جی۔۔۔!

پھیکا ایک نیا قِصّہ لے کر آیا تھا۔۔۔! مُدثر میرا بھتیجا کچھ عرصہ کے لیئے ملک سے باہر گیا تھا۔۔۔! اور پھیکے کو اپنے ایک دوست آفاق کے گھر کام پر رکھوا گیا تھا۔۔۔! میرے سارے ملازم بخشو سمیت آ کر بیٹھ گئے۔۔۔! پھیکے کے آنے پرمیری بیٹھک کے رنگ ہی اور ہوتے۔۔۔! سُچے اور سوہنے رنگ۔۔۔! سب کے چہرے پر جوش اور خوشی تھی۔۔۔! سب کے چہرے سوالیہ نشان بنے ہوۓ تھے۔۔۔! چل یار ہوا کیا آگے بھی تو بتا۔۔۔! صاحب جی ہونا کیا تھا وَڈے ابّا جی کے گزرتے ہی رشید کا پانی والا کٹورا چھوٹی دُلہن صاحبہ نے وَکھرا کر دیا جی۔۔۔! اور باقی پانڈے بھی وَکھرے کر دیئے کہ یہ عیسائی ہے جی۔۔۔!

صاحب جی رشید بھا ولیت کا اِکّو اِک پُتّر تھا۔۔۔! آفاق صاحب کے ابّا جی بتاتے تھے کہ وہ بھا ولیت کو بٹوارے کے وقت ساتھ لاۓ تھے۔۔۔! اُس کی زخمی ماں نے بھا ولیت کو امّاں جی کے حوالے کیا تھا۔۔۔! وہ عیسائی تھی۔۔۔! مرتے وقت اس نے امّاں جی کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے۔۔۔! امّاں جی نے ابّا جی کی طرف دیکھا بچہ عیسائی تھا۔۔۔! ابّا جی کے سر ہاں میں ہلاتے ہی اس کی ماں کی جان نکل گئی۔۔۔! موت بھی مامتا کے سامنے ہتھ بَنّ کر کھڑی رہی صاحب جی۔۔۔! جان نکلتی ہی نہیں تھی غریب کی۔۔۔! امّاں جی بتاتی تھیں کہ انہیں ڈر تھا عیسائی ہونے کی وجہ سے ابّا جی کِدرے نہ ہی نہ کر دیں۔۔۔! بعد میں امّاں جی کے پوچھنے پر ابّا جی نے بتایا۔۔۔! وہ کوئی نیک عورت تھی۔۔۔! میں نے موت کے فرشتے کو دیکھا تھا وہ چُپ چاپ مامتا کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا میری ہاں کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔! میرے سر ہلاتے ہی بڑے پیار سے اس کی جان نکال کر لے گیا۔۔۔! دو بچے سینے سے لگاۓ۔۔۔! امّاں جی نے تیسرے کو اُنگلی سے لگا لیا۔۔۔! دس بارہ سال کا سہما لاغر روتا وجود چُپ کر کے ساتھ چل پڑا۔۔۔! صاحب جی کیا گزرتی ہو گی غریب پر ماں کو چَھڈنا کوئی سوکھا تو نہیں نہ ہوتا ماں تو ماں ہے پاویں جیوندی ہو یا مری۔۔۔! بھا ولیت تب سے بڑے صاحب کے گھر تھا جی۔۔۔! کِنّا ٹیم لَنگھ گیا صاحب جی بھا ولیت ٹُر گیا اور ابّا جی بھی۔۔۔! بھا ولیت کے بعد اس کا بیٹا رشید سارے کام سنبھالتا ہے۔۔۔! صاحب جی ابّا جی کے گُزرتے ہی رشید کا داخلہ گھر کے اندر منع ہو گیا۔۔۔! چھوٹی دُلہن صاحبہ نے رشید کے پانڈے وَکھرے کر دیئے۔۔۔! بڑی پڑھی لکھی ہیں نا جی۔۔۔! پر صاحب جی تعلیم اگر یہ سکھاتی ہے تو شُکر ہے سوہنْے رَبّ کا مَیں نہیں پڑھا لکھا۔۔۔!

مامتا کا بَٹوارا تو اس وقت بھی نہیں ہوا تھا صاحب جی جب وطن بٹے تھے۔۔۔! بڑے ابّا جی کے جاتے ہی کار میں پھر بٹوارا ہو گیا۔۔۔! صاحب جی رشید سارا سارا دن منہ لکو کر روتا رہتا ہے جی۔۔۔! میرے سے اس کا دُکھ دیکھا نہیں جاتا۔۔۔! اس کے اندر کی عیسائیت تو کب کی مُک مکا گئی۔۔۔! پر صاحب جی ہمارے اندر کے بَٹوارے نہیں مُکے۔۔۔!

جب بھی پانی پینے لگتا ہوں صاحب جی سلور کا کٹورا آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔۔۔! اور رشید کے اتھروؤں سے بھر جاتا ہے۔۔۔! میرے سے اتنا کھارا پانی پِیا نہیں جاتا صاحب جی۔۔۔!

میں پھیکے کی بات سُن کر تڑپ گیا وہ کتنی گہری بات کر گیا تھا۔۔۔! ہم نے بانٹ بانٹ کر خود کو ہی کاٹ ڈالا۔۔۔! مذہب کی اس بانٹ میں انسانیت کا سب سے زیادہ نقصان ہوا تھا۔۔۔! چودہ اگست کے آنے میں چند دن رہ گئے تھے۔۔۔! جھنڈے میں موجود سفید رنگ کے ایک کونے میں بیٹھا رشید رو رہا تھا۔۔۔! سارے پاکستان میں اُس کی سسکیوں کی آواز سُنائی دے رہی تھی۔۔۔! باپ کی ساری زندگی کی خدمت بھی اسے وہ درجہ نہ دے سکی جو ایک انسان کا حق ہوتا ہے۔۔۔! پھیکا تو چلا گیا۔۔۔! میں کئی دن تک تک رشید کے بارے میں سوچتا رہا۔۔۔!

تین ماہ بعد پھیکا ملنے آیا اب کی بار بہت دنوں کے بعد آیا تھا۔۔۔! یار حد ہوگئی اس بار اتنے دن کر دیئے بندہ کوئی خط پتر ہی بھیج دیتا ہے۔۔۔! صاحب جی جن کے گھر کام کرتا ہوں نا آفاق صاحب وہ اچانک بہت بیمار ہو گئے۔۔۔! گرد ے فیل ہو گئے تھے جی آفاق صاحب کے۔۔۔! بس ہپستال کے چکر۔۔۔! بڑی پریشانی تھی جی سارا کار اُلٹ پلٹ۔۔۔! ہر دوسرے تیسرے دن سارا خون نکالتے جی اور پھر صاف کر کے ڈالتے۔۔۔! صاحب جی۔۔۔! آفاق صاحب کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی جی۔۔۔! ایک دن اچانک ڈاکٹروں نے بتایا کہ گردہ مل گیا ہے آپریشن ہوا شُکر ہے جان بچ گئی۔۔۔! صاحب جی گردہ مافق بھی آ گیا آفاق صاحب بھلے چنگے ہو گئے۔۔۔!

پھراچانک پھیکا رونے لگا۔۔۔! بہت رو رہا تھا۔۔۔! او کی ہو گیا جھلیا۔۔۔؟ صاحب جی رشید یاد ہے آپ کو جس کے پانڈے چھوٹی دُلہن صاحبہ نے وَکھرے کر دیئے تھے۔۔۔؟ ہاں یار پھیکے میں تو اُس کو بھول ہی نہیں سکا۔۔۔! بتا کیا حال ہے اُس کا۔۔۔؟ میرے پوچھنے پر پھیکا اور رونے لگا۔۔۔!

صاحب جی جن دنوں آفاق صاحب ہپستال تھے نا یہ کوئی اُن کو چھٹی ہونے سے ایک دو دن پہلے کی بات ہے۔۔۔! رشید ہپستال میں نظر آیا۔۔۔! ہپستال میں صفائی کا کام شروع کر لیا تھا جی اُس نے۔۔۔! پر صاحب جی پیلا پھٹک رنگ بُری حالت کمزور خَورے کیا ہوا بہت بیمار لگ رہا تھا۔۔۔! اس نے دِل کو ہی لگا لی تھی جی خَورے چھوٹی دُلہن صاحبہ کی بات۔۔۔! بڑے پیار سے ملا۔۔۔! مل کر وہ تو چلا گیا اور مُجھے کنڈوں پر پھینک گیا صاحب جی۔۔۔! اس کے جاتے ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب آ گئے کہنے لگے تم جانتے ہو اس کو۔۔۔؟ جی ڈاکٹر صاحب اچھی طرح ، یہ آفاق صاحب کے کار ہی ملازمت کرتا تھا۔۔۔! صاحب جی ڈاکٹر صاحب کہنے لگے۔۔۔! پھیکے رشید نے منع کیا ہے بتانے سے مگر اس کی صحت ٹھیک نہیں اس لیئے تمہیں بتانا ضروری ہے۔۔۔! آفاق صاحب کو گردہ رشید نے دیا ہے۔۔۔!

کیا۔۔۔؟؟؟ پھیکے کی اس بات نے میرے پورے بدن میں سنسنی دوڑا دی۔۔۔! پھیکا رو رہا تھا اس کی سِسکیاں بہت دور کہیں سنائی دے رہی تھیں۔۔۔! عیسائی رشید۔۔۔! جس کے برتن آفاق صاحب کی دُلہن نے الگ کر دیئے تھے۔۔۔! اس کا خون آفاق صاحب کے خون میں مل گیا تھا۔۔۔! خون جس کا رنگ ایک ہی ہے مذہب چاہے کوئی بھی ہو۔۔۔! پھیکے کی آواز مُجھے واپس ہوش میں لے آئی۔۔۔! روتے روتے کہنے لگا صاحب جی میں اگلے دن رشید کو ملنے ہپستال چلا گیا۔۔۔! اور وہاں سے اس کے ساتھ اس کے کار چلا گیا۔۔۔! وہ تو جی کچھ دن بعد ہی آفاق صاحب کے گھر سے چُپ چُپیتے غائب ہو گیا تھا۔۔۔! آفاق صاحب بھی کچھ دن بعد بُھل بُھلا گئے۔۔۔! میں رشید کے لیئے کچھ پھل وغیرہ لے گیا۔۔۔! مَیں روز اُس کے کار جاتا رہا۔۔۔! اس کا بخار نہیں ٹوٹا۔۔۔! خَورے کیا ہوا صاحب جی۔۔۔؟ ڈاکٹر صاحب بھی حیران تھے۔۔۔! کوئی غم اسُے اندر ہی اندر کھا رہا تھا۔۔۔! اور پھر رشید مر گیا۔۔۔! صاحب جی میں اس کے پاس تھا جب اس نے اکھیں بند کیں۔۔۔! جاتے جاتے کہنے لگا پھیکے آفاق صاحب سے کہنا رشید آپ سے وَکھ ہو کے جی نئیں سکا۔۔۔! پھیکا تڑپ تڑپ کر رو رہا تھا۔۔۔!

صاحب جی ایک بٹوارا اُس کی ماں کو کھا گیا اور دوسرا رشید کو۔۔۔! صاحب جی کتنا خون لکھنا ہے ہم نے دَھرتی کے ماتھے پر۔۔۔؟ صاحب جی ہم اتنا قرض کیسے چُکائیں گے۔۔۔؟ حساب تو دینا پڑے گا۔۔۔!

میرے اندر بات کرنے کی بھی سکت نہیں تھی۔۔۔! اور پھر میں کہتا بھی کیا۔۔۔؟ ہے ہی کیا تھا کہنے کو۔۔۔؟ “ایہہ پُتّر ہٹاں تے نہیں وِکدے” باہر نُور محمد نے ریڈیو چلا دیا تھا۔۔۔!

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *