Home / آرٹیکلز / “فقیر کی صدا “

“فقیر کی صدا “

میرا روز کا معمول ہے کہ میں ظہر کی نماز کے بعد قرآن مجید کا ایک رکوع ترجمہ کے ساتھ پڑھتی ہوں ۔
آج سورت الضحی پڑھتے ہوئے میری نظر اس آیت پر ٹہر گئی۔

ترجمہ:
“اور نہ سوال کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ ”

مجھے دو سال پہلے کی بات یاد آگئی ۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم لوگ نئے نئے پنڈی شفٹ ہوئے تھے۔ہمارا گھر سڑک کنارے تھا۔ایسی سڑک جہاں لوگوں کی آمدورفت اور گاڑیوں کا ہجوم ہر وقت لگا رہتا تھا ۔
میرے کمرے میں ایک عدد کھڑکی تھی ۔ کاموں سے فراغت کے

بعد میں  اکثر وہاں کوئی کتاب یا ناول لے کر بیٹھ جاتی۔
مطالعہ کے دوران یونہی ایک آدھ بار کھڑکی سے باہر نظر پڑ جاتی۔

      ایک دن گاڑیوں کے بے ہنگم شور میں ایک سکون بخش صدا سنائی دی ۔

“کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں الہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں ”

اس آواز نے مجھ میں تجسس پیدا کیا کہ میں اک نظر باہر دیکھوں ۔
میں نے دیکھا دور سڑک کے اس پار ایک ادھیڑ عمر فقیر یہ نعمت بلند آواز میں پڑھ رہا تھا تاکہ لوگ اس کی کچھ نہ کچھ مدد کریں ۔
اس نے کالے رنگ کا ڈھیلا ڈھالا لباس پہن رکھا تھا جس کے کف کھلے ہوئے تھے۔ سر پر گندمی سے رنگ کی پگڑی باندھ رکھی تھی ۔ایک ہاتھ میں کپڑوں کی گھٹڑی اور دوسرے ہاتھ میں سہارے کے لیے ایک چھڑی تھام رکھی تھی ۔شاید وہ اس عمر میں کچھ  نابینا ہو چکا  تھا۔
میں نے اس کا بغور جائزہ لیا تھا۔سڑک کے اس پار بنی کئی دکانوں سے وہ سست رفتاری سے گزر رہا تھا۔آواز میں اتنی مٹھاس تھی کہ دل چاہا وہ یہی رک کر یہ نعمت پڑھتا جائے۔۔

کئی لوگوں کی نظریں چند سیکنڈ کے لیے اس پر آ کر ٹہرتی اور پھر اپنے اپنے کاموں میں مصروف عمل ہو جاتی ۔

فقیر کے قدموں کے کچھ فاصلے پر ایک دکان کے سامنے کیراج بنا ہوا تھا جہاں no parking لکھا ہوا تھا مگر وہاں ایک کیری ڈبہ اصول کے خلاف اپنی پوری شان کے ساتھ کھڑا تھا۔
کیری ڈبے کے بائیں جانب ایک آدمی موبائل کان کو لگائے کسی سے بات کر رہا تھا۔ اس آدمی نے فقیر کو آواز لگائی اور ہاتھ کے اشارے سے کچھ دیر رکنے کے لیے کہا۔
شاید وہ کال ختم ہونے کے بعد اسے کچھ دینا چاہتا تھا ۔
فقیر اس کے کہنے پر رک گیا ۔
دیکھتے ہی دیکھتے اس آدمی کی کال لمبی،مزید لمبی ہوتی گئی ۔فقیر شاید ” صاب جی صاب جی ” پکارنے لگا تھا ۔
میں ان کے چہروں سے ان کی گفتگو کا اندازہ لگا سکتی تھی۔

چند منٹ بعد اسی جگہ تین آدمی مزید آئے ۔پہلے سے موجودہ آدمی کی کال اب بند ہو چکی تھی۔کال بند ہونے کے بعد اس آدمی نے فقیر کو دیکھ کر نظر انداز کر دیا اور آنے والے آدمیوں سے خوشگپیوں میں مصروف ہو گیا۔
فقیر نے دوبارہ کئی بار “صاب جی صاب جی ” پکارا ، شاید اسے کچھ امید باقی تھی مگر اس آدمی نے فقیر کی ایک آواز نہ سنی۔

فقیر کو وہاں رکے ہوئے تیس چالیس منٹ گزر گئے ۔مزید کئی لوگ اس کے قریب سے گزرے مگر کسی نے ایک روپیہ بھی  اس غریب کے ہاتھ پر نہ رکھا۔
مجھے اپنی عوام پر صد افسوس ہوا۔میری آنکھ میں آنسو آگئے  ۔ میں نے سوچا یہ سائل کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے۔  اس کی غربت کا مذاق اڑانا ہوا۔

میرا دل چاہا بھاگ کر جاوں اور اسے مایوس نہ ہونے دوں ۔
مگر وہ ادھیڑ عمر فقیر سڑک دوسرے کنارے تھا۔ اور  میں  گھر میں اکیلی، یہ منظر دیکھ رہی تھی ۔کشادہ سڑک پر گاڑیوں کی تیز آمدورفت کی وجہ سے میں نہ جا سکی۔مجھے آج بھی اس بات کا بے تحاشہ دکھ ہے کہ میں نہ جاسکی۔کاش میں چلی گئی ہوتی تو آج اس دکھ میں مبتلا نہ ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔

جب اللہ کے کسی بندے نے اسے کچھ نہ دیا تو اس کے چہرے پہ مایوسی کے اثرات وارد ہونے لگے۔وہ وہاں سے مایوسی ہو کر آگے چل پڑا۔اور دوبارہ سے بلند آواز میں نعت پڑھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔

” کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں الہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں ”

نجانے ہم لوگ کب سمجھیں گے کہ مال و دولت اللہ کی راہ میں دینے سے کم نہیں  پڑتا بلکہ اللہ پاک تمھارے تھوڑے سے مال کو بھی دگنا کرکے لوٹاتا ہے۔
مال کو پاکیزگی عطا کرتا ہے ۔اور یہ صدقہ و خیرات ہمارے لیے آخرت میں ذریعہ نجات بن جائے گا ۔۔۔۔۔

ختم شد

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *