Home / آرٹیکلز / ایک رشتہ ایسا بھی

ایک رشتہ ایسا بھی

بقولِ ساحل: سنو! کیا تم جانتی نہیں ہو کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں، کس قدر میرے دل میں تمہارے لئے جذبات ہیں، تمہیں تو میری بےلوث محبت کا اندازہ ہے؟ میں کتنا ٹوٹ کر تم کو چاہتا ہوں؟ تمہارے بنا میری زندگی بےمعنی و بےحیثیت ہوجاتی ہے، میری سوچ کا دائرہ تم سے شروع اور تم پر ختم ہوتا ہے، میں تمہاری ملاقات سے پہلے محبت کے جذبات سے عاری تھا، تم نے میرے ویران دل میں محبت کے پھول کھلائے ہیں، تم سے مل کر میں نے جانا کہ محبت ایک لطیف اور مقدس شئے ہے، کوئی انسان محبت کے بنا زندگی نہیں گزار سکتا ہے، محبت کے اپنے اسرار ہوتے ہیں، اس کے اپنے ہی رموز ہوتے ہیں، تم سے مل کر میں جانا کہ محبت جھلستی دھوپ میں سایہ ابر ہے، محبت گناہ نہیں توفیق ہے جسے ہوجائے وہ دل بہت پاک اور محترم ہے، محبت جب کسی انسان سے ہو تو انسانیت کے اعلٰی مدارج تک پہونچا دیتی ہے، اور اگر رب سے ہو تو بغیر حساب کتاب کے جنت لے جاتی ہے، بس اتنا جان کو
کہ محبت ایک خدائی راز ہے جو کم ظرفوں پہ آشکارہ نہیں ہوتی ہے.نازش تڑپ اٹھتی ہے، اپنی پیوستہ محبت کی دُہائیاں دینے لگتی ہے، ساحل کو روتی عورتیں بالکل پسند نہیں ہیں، تو تو نازش اپنے آنسو خشک کرکے گڑگڑاتے ہوئے کہتی ہے : ساحل! پلیز خدا کے واسطے ایسا مت کرنا، میں مر جاؤں گی، مجھے اپنے ہاتھوں سے مار دینا لیکن اتنی بڑی سزا مت دینا جو میرے برداشت سے باہر ہو، میں وہ بوجھ نہیں سہہ سکوں گی میری زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا، تم تو جانتے ہونا کہ “وہ رب کریم بھی اپنی عبادت میں شرک کی معافی نہیں دیتا ہے، میں تو پھر بھی ایک ناتواں انسان ہوں، اپنی محبت میں شرکت کو کیسے جھیل سکوں گی، وہ تو ہر بات کی چھوٹ دیتا ہے معاف کر دیتا ہے لیکن شرکت اُسے قطعی گوارہ نہیں، تو آپ سوچئے میں ایک حقیر سی اس کی بندی کب متحمل ہو سکوں گی، مجھے اپنے ہاتھوں سے میرا گلا دبا کر مار دیجئے تب آپ کو اجازت ہے جو چاہے کریں، لیکن الله کے واسطے مجھے وہ دن نا دکھائے گا کہ میں جیتے جی مر جاؤں، اور اگر زندگی رہی بچ جاؤں تو زندگی کی رمق باقی نا رہے بس اک زندہ لاش بن کر رہ جاؤں گی، سنئے میرے سرتاج آپ جو کہئے گا وہی ہوگا، لیکن اتنا بڑا غم نا دیجئے گا جو زندگی بھر ناسور بن کے میرے کمزور وجود کو رفتہ رفتہ کھائے اور اتنے میں فون کٹ جاتا
ہے، یہ منتیں فون پہ ساحل سے اس کی بیوی نازش کر رہی تھی، جسے چار سال پہلے ساحل نے اس کے مائیکے چھوڑتے وقت یہ کہا تھا کہ میں بیرون ملک ایک بےحد ضروری کام سے جا رہا ہوں، تب تک تم اپنے گھر رہو بہت جلد واپس آنا ہوگا، اور یوں ہوا کہ چار سال بعد جب اس کی واپسی ہوئی تو نازش بےتابانہ اپنا سب کچھ فراموش کرکے شوہر کے گھر بھاگی جاتی ہے اور گھر پہونچتے ہی شوہر در پر ہی دھتکار دیتا ہے، یہ وہی ساحل ہے جس نے محبت کو خدائی راز کہا تھا، اور محبت کو محترم و مقدس جانا اور مانا تھا، لیکن آج چار سال بعد نازش اپنے ہی سسرال میں بےوقعت ہوکر رہ گئی تھی، جیسے ہی ساحل نے کہا تم سن لو : اس میں گھر میں تمہاری گنجائش اب بھی باقی ہے، لیکن اس وعدہ کے ساتھ کہ کبھی مجھ سے میری دوسری شادی کے بارے میں بات نہیں کرو گی، ہاں! تم نے صحیح سنا ہے، میں نے دوسری شادی کر لی ہے اتنا سننا تھا کی نازش کا جسم ہوا ہوجاتا ہے وہ زمین پہ اوندھے منھ گر جاتی ہے اور اپنی محبت کو امر کرکے دکھا جاتی ہے کہ محبت میں شرکت نہیں ہوتی.قفسِ عنصری سے اس کی روح پرواز کرتی ہوئی مالکِ حقیقی سے جاملتی ہے، اور اس کا بےجان جسم زبان حال سے یہ کہہ رہا ہوتا ہے: ایک تیرے لئے … … …

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *