اس شجر سایہ دار کا سایہ بھی سر سے غائب ہوچکا تھا جس نے زندگی کے ہر مرحلے میں سایہ فراہم کیا تھا.
بھائی نے وفات سے کچھ پہلے ہی اپنی دوسری بہن اذکاء کی شادی بھی سادگی سے کر دی تھی، لیکن بھائی کے چلے جانے کے بعد سسرال میں زندگی اجیرن ہوگئی تھی، ساس دن بھر یہ کرو،وہ کرو، اس کو اچھے سے کیوں نہیں کیا، تمہارا دماغ کہاں رہتا؟ تمہارے بھائی کے چلے جانے کی وجہ سے ہم نرمی کرتے ہیں، ایسی کڑوی کسیلی باتیں سنتی اور دل ہی دل خون کے آنسو روتی، وہ پچھلے چند ہی دنوں میں زندگی سے مایوس ہوگئی تھی، وہ خود کو زمین پر صرف ایک بوجھ سمجھنے لگی تھی، ایک دن سوچنے لگی کہ اگر بھائی ہوتے تو شاید یہ دن نا دیکھنے کو ملتا، کیوں کہ جب تک بھائی زندہ تھا سب اچھا چل رہا تھا، اس کا بھائی نبیل ابھی جلدی ہی اسسٹنٹ پروفیسر ہوا تھا، اور بہن کا سسرال راستہ میں ہونے کی وجہ سے دوسرے تیسرے روز بہن کی خریت کے لئے چلاتا تھا، تحائف سے اس کا دونوں ہاتھ بھرا ہوتا، جس میں مشکل
سے ہی کچھ اذکاء کے لئے بچتا تھا، زیادہ تر سامان اذکاء کی ساسوماں کی فرمائش کے ہوتے اور جو بچتا وہ بھاوجیں یہ کہہ کر رکھ لیتی کہ تم بھائی سے دوسرا منگا لینا، ابھی ہمیں اس کی سخت ضرورت ہے اور تم تو اس کو سجا کر رکھ دوگی، ایامِ مرور نے انگڑائی لی اور اذکاء کی کایا الٹ پلٹ گئی، گوایا اسی گھر میں اس کی حیثیت صرف ایک نوکر کی رہ گئی ، شام میں تھکا ماندا اذکاء کا شوہر گھر آتا تو ماں دنیا کی کہانی لے بیٹھتی تماری بیوی دن بدن کام چور ہوتی جارہی ہے، آج ایک گلاس پانی مانگا تو روٹی بنانے کا بہانا کر دیا، اب اس عمر میں خود مجھے ہی اٹھ کر پانی بھی پینا پڑ رہا ہے شوہر نامدار کے اندر کا مزاجی خدا جاگ جاتا، بس پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ رشتہ بھی کمزور ہوتا چلا گیا، ایک دن وہ چکرا کر گر جاتی ہے، آفس سے اذکاء کا شوہر سیدھے ہاسپٹل ہی جاتا ہے، اس کا چہرہ غصہ کی وجہ سے سرخ رہا تھا، وہ امی سے کہہ رہا تھا: اب اگر اذکاء نے اپنی من مانی کی تو اس کو سبق سیکھاؤں گا، یہ باتیں وہ کہہ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے ڈاکٹر کے ساتھ اذکاء آکر کھڑی رہتی ہے، ڈاکٹر پہ نظر پڑتے ہی اس کا شوہر ذاکر کچھ بولنے کے لئے لب کو جنبش دیتا ہی ہے کہ ڈاکٹر نے بات کاٹ کر کہا گھبرانے کی بات نہیں ہے، بس ذرا بی پی لو ہوجانے کی وجہ سے چگر آگیا تھا، لیکن آئندہ خیال رہے اگر ایسا ہوا تو دونوں کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر چلی جاتی ہے، گھر آنے کے بعد اذکاء نے کچھ دنوں کے لئے مائک جانے کی خواہش ظاہر کی، جو کہ بخوشی
قبول کر لی گئی، دوسری شام ذاکر دروازے پہ ہی اس کو چھوڑ کر جلدی کی وجہ سے چلا جاتا ہے، دروازہ ناک کرتی ہے سامنے اذکاء پہ نظر پڑتے ہی اس کی بھابھی اس کو گھری گھوٹی سنانے لگ جاتی ہیں، اب کیا تم ہم کو بھی سکون سے نا جینے دو گی، اپنے سگے بھائی تک کو کھا گئی ڈائن ہو تم، تمہارے لئے اس گھر کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہو چکے ہیں، نکل جاؤ یہاں سے، دفع ہوجاؤں آنکھوں کے سامنے سے، پھر کبھی یہ منحوس چہرہ سامنے نا لانا یہ کہتے ہوئے دروازہ بےرخی سے منھ پہ بند کرکے اندر چلی جاتی ہے.
اذکاء کی کُل دنیا آن واحد میں ہی اُجر جاتی ہے، اس کے دماغ میں شوہر کی کہی ہوئی بات اب تک گونج رہی تھی، اور یہاں سے بھی بےآبرو ہوکر نکلی.
لیکن وہ ایک اچھی اور پڑھی لکھی، مضبوط اعصاب کی مالکہ تھی، فوراً ہی مایوسی کو دماغ سے جھٹکا اور ایک فیصلہ پہ پہنچ کر سامنے چوراہے سے ایک راستہ کا انتخاب کرتی ہوئی اندھی رات کے مسافر کی طرح پیدل چل پڑی.
شام گھری ہوچلی تھی،بڑھتے قدم کے ساتھ وہ اپنی منزل سے قریب تر ہوتی جارہی تھی، اور جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہی تھی وہ اپنے فیصلہ میں مزید پختہ ہوتی جارہی تھی، آخر میں اندھیری رات کے مسافر کا سایہ بھی تاریکی میں گم جاتا ہے.