یاض صاحب کے یہاں پہلے بیٹے کی پیدائش اور اسی دن اسکی وفات کے بعد یکے بعد دیگرے سات بیٹیاں پیداہوئیں پر مجال ہے ایک بھی شکن آئی ہو ماتھے پر ہر بیٹی کو خوشی خوشی اللہ کی رضاجان کر بسر و چشم قبول کیا اور ہر بیٹی کی پیدائش پر بیگم کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوۓ انہیں مبارک باد دی۔ بچیوں کی دادی جان کارویہ بھی بلکل ایسا ہی ہوتا
بلکہ جو بچی تھوڑی سی سمجھدار ہوتی وہ دادی جان کے کمرے میں منتقل ہو جاتی اور دادی جان کی مزے ے مزے کی کہانیاں سنتی مگر زمانے کی زبان کو کہاں چین تھادوست یار رشتے دار سب بچیوں کی بڑھتی تعداد کود کچھ کر چہ مگوئیاں کرتے ایک نادو پوری سات فیاض صاحب تو گئے کام سے دوست لوگ اکثر کہا کرتے بھائی فیاض سات بیٹیا ہیں کیسے سنبھالو گے کیسے بیاہو گے تم نے تو غربت میں اپنے کندھے کا بوجھ بڑھالیا اب تمہارا کیا بنے گا فیاض صاحب کا ایک ہی جواب ہوتا جس اللہ نے نوازی ہیں وہی آگے کا بھی بندوبست کرے گا اور پھر پہلے بیٹی کے بالغ ہوتے ہیں رشتے آناشروع ہو گئے اور اللہ کی شان کہ رشتے بھی ایسے جو صرف بیٹیوں کے طالب تھے جہیز کے نہی ایک رشتہ تے پا گیا سال بعد شادی تے پائی شادی سے کچھ دن پہلے لڑکے کے چھوٹے بھائی کے لیئے دوسری بیٹی کارشتہ بھی مانگ لیا گیا یوں ایک ساتھ دو سیٹیاں بنا جہیز کے اپنے گھروں کی۔ ہو گئیں اور پھر یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں دیکھتے ہی دیکھتے اپنے گھروں کی ہو گئیں وہی دوست یار رشتے دار دانتوں میں انگلیاں دابے دیکھتے رہ گئے جنکی اپنی بیٹیاں ابھی تک گھروں کی دہلیز پر اچھے رشتوں کے انتظار میں بالوں میں چاندی نکالے بیٹھی تھیں
چھ بیٹیوں کی شادیوں کے بعد فیاض صاحب جگر کے سرطان میں مبطلاع ہو گئے اور چھوٹی بیٹی کے لیے فکر مند رہنے لگے مگر اللہ نے اسکا بھی بند وبست جلد ہی کر دیا اور بیماری کی حالت میں اللہ کے فضل سے اسے بھی اپنے گھر رخصت کیا تمام بیٹیاں اللہ کے فضل و کرم سے بنا جہیز کے اپنے اپنے گھروں کی ہو گئیں ایک دن فیاض صاحب نے اپنی بیگم سے کہا میں اللہ سے تمہاری سفارش کروں گا تم بہت اچھی بیوی اور اچھی ماں رہیں تمہیں اپنے ساتھ جنت میں لیجاؤں گا بیگم نسنیں لگیں تمہیں کیسے پتا کہ تم جنت میں جاؤ گے فیاض صاحب مسکرا کے بولے مینے اللہ کی دی ہوئی سات بیٹیوں کو اپنے گھروں کا کر دیا تو کیا اللہ مجھ سے راضی ناہو گا وہ ضرور مجھے جنت میں جگہ عطا کرے گا اور آخری بیٹی کی شادی کے چند دن بعد انکا انتقال ہو گیا جب انکی میت ہو سپٹل سے گھر لائی جارہی تھی تو اچانک آسمان سے پانی کے قطرے گرنے لگے جبکہ آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا۔اور میت قبر کے حوالے کرنے تک جسم گرم اور نرم تھا اکڑا نہی تھاسبحان اللہ خدارا بیٹیوں کو بوجھ سمجھنا چھوڑ دیں بیٹیاں بوجھ صرف انکے لیے ہی بنتی ہیں جو انہیں بوجھ سمجھتے ہیں اللہ پاک سب بہن بیٹیوں کو اپنے اپنے گھروں میں آباد وشادر کھے آمین۔