Home / آرٹیکلز / پی ایچ ڈی طوائف

پی ایچ ڈی طوائف

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایم اے کا فارم جمع کرارہاتھا پیچھے سے آواز آئی ۔ اردو کے فارم یہیں ملتے ہیں۔ ایسی خوبصورت آواز کہ کانوں میں رس گھو ل گئی۔ مڑ کر دیکھا تو وہ فارم لینے والوں کی بھیڑ میں کہیں کھو گئی ۔ لیکن اس کی پرکشش آواز مجھ پر سحر کی گئی ، فارم جمع کیا کچھ دن کے بعد ٹیست ہوا۔ ایم اے میں ایڈ میشن ہوگیا۔ ایڈ میشن فیس جمع کرا کے دس دن کےلیے گھرچلا گیا۔گھر سے واپس آیا۔ دوسرے دن یونیورسٹی پہنچا ۔ پروفیسر خالد محمود صاحب کی اردو کی کلاس تھی ۔ ان کی عادت تھی ۔ کہ وہ کلاس میں آتے ہی دروازہ بند کرتے پھر لیکچر شروع کرتے۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ پر دستک ہوئی سرنےلیکچر دیتے ہوئے دروازہ کھولا، مے آئی کم ان سر! پھر وہی پرکشش خوبصورت آواز میری سماعت کے تار چھیڑ گئی ۔

جس کے بول کی مٹھاس اب تک کانوں میں شہد کی طرح موجود تھی ۔ وہ معذرت کرتے ہوئےکلاس میں بیٹھ گئی ۔ ایسا لگا جیسے پور ا کلاس روشنی سے بھر گیا۔ وہ بلا کی خوبصورت تھی ۔ غزالی آنکھیں، مخملی پلکیں ، ریشمی زلفیں ، چمکتا چہرہ جیسے ستاروں کے درمیان چاند ہو وہ سر سے پاؤں تک حسن کا لازوال شاہکار تھی۔ اس کے حسن میں ایسا ڈوبا کہ ڈاکٹر محمود صاحب نثر پڑھاتے رہے ہیں۔ میں غزل لکھتا رہا، اس کے حسن کا نہ صرف میرا کلاس بلکہ پورا ڈیپارٹمینٹ شیدائی تھا۔ دوسری کلاسیں بھلے ہی چھوٹ جائیں۔ لیکن اردو کلاس کبھی مس نہیں ہوتی۔ اللہ نے اس کو حسن کے ساتھ ساتھ ذہانت اور قابلیت سے بھی نواز ا تھا۔

غالب ، مومن ، حالی ، ذوق جیسے شعراء کا بیشتر کلام اسے یاد تھے ۔ اپنے یا قوتی ہونٹوں سے جب کبھی شعر گنگناتی تو اس کی خوبصورت آواز پر پوری فضا رقص کرتی ۔ میں اس کے حسن پر مائل تو تھا ہی اس کی قابلیت کا بھی قائل ہوگیا۔ لیکن نہ جانے کیوں وہ ہر وقت خاموش رہتی ۔ فاخرہ باجی کے ساتھ صبح آتی اور انہیں کے ساتھ واپس چلی جاتی ان کے علاوہ نہ اس کی کوئی سہیلی تھی نہ کوئی دوست وہ اتنی کم گو تھی ۔ کہ ضرورت کے وقت بھی کم ہی بولتی ہر وقت کھوئی کھوئی دنیا سے بے خبر رہتی ۔ خالی گھنٹیوں میں ہم سب کینٹین جاتے تو وہ لائبریری چلی جاتی ۔ باخدا علم حاصل کرنے کا اس قدر شوق میں نے کم ہی لوگوں میں دیکھا۔ ہرروز بلاناغہ دل میں حسرت لئے کالج آتا کہ کا ش کسی دن وہ مجھ سے مخاطب ہو اور میں اپنا دل نکال کر اس کے قدموں میں رکھ دوں۔ لیکن پورے سال میری طرف کیا ۔ پورے کالج میں کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔

اس کی عفت نظری نے میرے دل میں اس کی عزت اور عظمت کو اور بڑھا دیا دانستہ طور پر کسی کی طرف تو نہیں دیکھتی۔ لیکن اکثر میرے سلام کا جواب دیتے وقت اس کی ریشمی پلکیں میری طرف اٹھ جاتیں ۔ میں اکثر اپنے آپ سے سوال کرتا پتہ نہیں وہ میری حسرت بھری نگاہ اور احساس کو پڑھتی بھی ہے یا نہیں ؟ کیا وہ محبت نہیں سمجھتی ؟ اس کے سینےمیں بھی توآخر دل ہے کیا وہ کبھی مجھ سے بات کرے گی۔ اگر کسی دن مخاطب ہوئی تو بلاتاخیراپنے پیار کا اظہار کر ہی دونگا اسی سوچ اور کشمکش میں پورا سال ختم ہوگیا۔ لیکن وہ کبھی بھول کر بھی مخاطب نہیں ہوئی۔ امتحان شروع ہوگئے۔ میں دیگر ساتھیوں کی طرح بہت محنتی تو نہیں تھا۔ گھنٹوں بیٹھ کر پڑھنے کی عادت توکبھی نہیں رہی ۔ لیکن لکھنے میں مجھے بڑا مزا آتا اور یہی وجہ تھی کہ امتحان کے زمانے میں نوٹس بنانے سے پہلے ہی میرے نوٹس تیار رہتے، استا دجتنا کلاس میں پڑھاتے اس کو لکھ لیتا۔ اس طرح امتحان کی تیاری کےلیے مکمل نوٹس میرے پاس موجود ہوتے اور یہ بات فائزہ کو معلوم تھی ۔

اتفاق سے ایک دن میں کالج لیٹ پہنچا اور اسی دن وہ ڈیپا رٹمینٹ کے سامنے بیٹھی میرا انتظار کررہی تھی میں کالج آیا اسے سلام کرتے ہوئے ڈاکٹر حلیم صاحب کے چیمبر کی طرف بڑھ ہی رہا تھا۔ کہ اس نے مجھے آواز دی ۔ عزیز سنو میں تمہاری ہی انتظار کررہی تھی۔ اس کے مرمری لہجے سے نکلا ہوا لفظ عزیز او ربھی عزیز ہوگیا۔ پل بھر کے لیے میں حسین خیالوں میں ڈوب گیا۔ جان بوجھ کر نظر انداز کیا کہ وہ اپنے یا قوتی ہونٹوں سے میرا نام لیتی رہے اور میں سنتا رہوں۔ چیمبر سے نکلتے ہوئے کسی لڑکے نے مجھے اشارہ کیا کہ تمہیں کوئی بلارہا ہے۔ تب تک وہ خود ہی میرے پاس آگئی عزیز کب سے بلارہی ہوں سن نہیں رہے ہو۔ او ہ سوری نہیں سنا کہو کیسے یا د کیا۔ جیسے میری آواز حلق میں اٹک گئی ہو قبل اس کے کہ میں اس سے کچھ کہہ پاتا وہ دو ٹوک لفظوں میں وضاحت کرتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئی عزیز مجھے تمہارے نوٹس چاہیں۔ لیکن پلیز اپنے دل میں کوئی خوش فہمی مت رکھنا کہ میں نے تم سے بات کی ، کتابوں کے ساتھ ساتھ میں نے تمہاری خاموش نگاہوں کو بھی اکثر پڑھا ہے اس کی قدر کرتی ہوں ۔

لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تمہاری یہ محبت ہوس کے سوا کچھ نہیں ۔ سچا انسان پہلے نکاح اور پھر محبت کرتا ہے۔ سکول ، کالج ، آفس اور سڑکوں پر پلنے والی محبت کی میرے نزدیک کوئی حیثیت نہیں بڑے بے باک انداز میں محبت کی جگہ اپنے خیالات اور احساست کو خوبصورت طریقے سے میرے سینے میں اتار کر چلی گئی ایسا لگا جیسے اس نےمیری آنکھیں ہی نہیں میری سوچ کو پڑھ رکھا ہو میں اس کا لہجہ اور اپنی م ایوسی دل میں لیے بیٹھا سوچتارہا کہ اتنی چھوٹی سی عمر اتنا تلخ تجربہ اکثر ایسے خوبصورت اور حسین چہرے تو بڑےمغرور اور دل فریب ہوا کرتے ہیں۔ لیکن اس کی سادگی ، شرافت ، پرعزم لہجہ بتارہا ہے۔ یا تو کسی اعلیٰ اور شریف خاندان سے ہے یا پھر کسی بدترین سانحے نے اس کی دل میں مردوں کے بارے میں نف رت اور تلخی پیدا کردی ہے۔ لیکن محبت تو پتھروں میں بھی جان ڈال دیتی ہے۔ میں اپنی محبت ثابت کرکے رہو ں گا۔ وہ اس کا عزم ہے یہ میرا عز م ہے۔ دوسرے دن وہ میری بیاض واپس کرنے آئی۔ اور شکریہ ادا کرتے ہوئے جانے لگی ۔ میں نے اس کو بلایا اور بے جھجک کہہ دیا کہ فائزہ تم جو بھی سمجھو پر میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔ تھوڑی دیر وہ خاموش رہی اور طنزیہ لہجے میں کہا جاؤ۔

عزیز میرے پیچھو اپنا وقت اور مستقبل برباد مت کرو ۔ میں نے تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا ۔ میں کسی محبت کو نہیں جانتی میرا اس سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ۔ محبت کیا ہے؟ میں تمہیں بتا چکی ہوں۔ جو تم محبت میں چاہتے ہو۔ وہ میں کر نہیں سکتی۔ اور جو میں چاہتی ہوں۔ وہ تم کر نہیں سکتے عارضی اور تفریحی محبت کےلیے میرے سینے میں کوئی جگہ نہیں، فائزہ تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو میری محبت کسی مقصد کے لیے نہیں مردوں کی محبت کو میں اچھی طرح جانتی ہوں کیا تمہارا معاشرہ مجھ جیسی لڑکیوں کو اپنے گھر کی بہو بنائے گا ہاں میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ ٹوٹ کر محبت کرتی ہوں کیا تمہارےاند رمجھ سے شادی کرنےکی ہمت ہے کیا تمہاری سچی محبت میں اتنی طاقت ہے۔ فائزہ کیا مطلب ، تمہارا توایک شریف اور اچھے گھرانے سے لگ رہی ہو ہاں میں بہت شریف ہوں۔ اور پاکدامن بھی لیکن میرا گھرانہ اچھا نہیں میں کسی اعلیٰ خاندان سے نہیں میں اس راز کو بتانا تو نہیں چاہتی تھی ۔

لیکن تمہاری روایتی محبت اور مصنوعی دیوانگی کےسامنے اب حقیقت کو واضح کردینا بہت ضروری ہے۔ عزیز میں ایک ط وائ ف کی بیٹی ہوں ۔ اور مجھ جیسی لڑکیوں کی اس سماج میں کوئی جگہ نہیں اس ماں کے لیے جس نے مجھے اس مقام پر لاکھڑا کیا اس کو ایسے برے لفظ سے پکارنے کی مجھ میں ہمت تو نہیں لیکن یہی حقیقت ہے ۔ میری بے بس ماں چاہیے جیسی رہی ہو لیکن وہ ایک باہمت عورت تھی مجھے اس ناپ ا ک زندگی سے بچانے کے لیے نہ جانے کتنے سفید پوش لوگوں سے بھیک مانگی، مگر ان م ردوں کی بھیڑ میں ماں کے جسم کونو چنے والے بھی ڑئی ے تو ملے لیکن اس بھیڑ میں کوئی ایک اعلی ٰ ظرف نہیں ملا جو مجھے اپنا تایا میری ماں کو کوٹھے کے اندھیرے سے نکال کر روشنی کی دنیا میں لاتا، کوئی اعلیٰ ظرف ملا تو وہ فاخرہ نامی ایک عورت تھی جو فرشتے کی طرح محلے کی اس دکان پر مل گئیں۔ جہاں میں روز ٹافیاں لینے جایا کرتی تھی۔ میری معصومیت دیکھ کر پوچھ بیٹھیں کہ کہاں رہتی ہو میں نے ان سے بتایا تو وہ سمجھ گئیں۔ ایک دن میری اماں سے ملیں اور مجھے پڑھانے کی بات کی تو میری اماں خوشی سے روپڑیں ۔ ان کی پتھر ائی آنکھوں کو روشنی مل گئی۔ بالآ خر فاخرہ باجی کی مدد سے رام پور نسواں سکول میں میرا داخلہ ہوگیا اور وہی میرا تالیق تھیں۔ معاشرے کے خ وف اور میری عزت کی خاطر اماں مجھ سے ملنے نہیں آتیں۔ پورے سال میں صرف دو بار سکول آتیں ۔ا یک بار چھ مہینے کی فیس جمع کروا کے چلی جاتیں۔ اور پھر چھ مہینے اپنا جسم بی چت یں اور پھر اگلے چھ مہینے کی فیس جمع کروانے کے لیے آتیں۔ جب وہ مجھ سے ملنے آتیں ۔ تو میرے سامنے نظریں جھکائے ڈری سہمی سی نظر آتیں۔

میں اپنی بے بسی اورماں کے حال پر خ ون کے آنسو روتی تھوڑا شعور ہوا تو ماں کو بہت سمجھایا ۔ لیکن ان کا اب اس کالی دنیا سے نکلنا بہت مشکل تھا۔ فاخرہ باجی جیسی پاکدامن اور مخلص عورت میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا وہ میری ماں کو سکول کے بچوں کے سامنے اپنی بہن کہتیں۔ فاخرہ باجی میری دوسری ماں تھیں۔ میرا کوئی گھر نہیں تھا۔ سکول اور دوستوں کی نظر میں میری عزت کو بحال رکھنے کی خاطر سال میں جب چھٹی ہوتی تو وہ مجھے اپنے گھر لے جاتیں۔ میں ایک مہینہ وہیں رہتی ۔ ان کے والد محترم بڑے مذہبی تھے ۔ مجھے بیٹی کی طرح مانتے جب تک میں وہاں رہتی معاشرے کے خ وف سے میری ماں مجھ سے ملنے نہیں آتیں۔ میں ایک مہینے بعد جب واپس مدرسہ چلی جاتی تو فیس جمع کروانے آتیں ۔ تو وہیں ملاقات ہوتی ۔ میں کلاس کے آخری سال میں تھی ۔ چھ مہینے گزر گئے۔ اماں فیس جمع کروانے نہیں آئیں۔ مہینوں گزر گئے کوئی خبر نہیں ۔ فاخرہ باجی کو فون کرکے پتہ کروایا ۔ تو پتہ چلا کہ تین مہینے پہلے رام پور میں ہوئے ایک بس ح ادث ے میں ان کا ان تق ال ہوگیا۔ اتفاق سے وہ من ح اد ثہ میرے سکول گیٹ کے سامنے ہی ہوا تھا۔ پر مجھ بدن صیب کو کیا پتہ کہ میری ماں نے آخری سانس میرے سکول گیٹ کے سامنے لی اللہ کا شکر ادا کیا۔ کہ ان کو اس گھناؤنی دنیا سے آزادی مل گئی۔ شاید میری بہترین پرورش ، گن اہ کی دنیا سے محفوظ رکھنے اور میری تعلیم کےلیے ان کی قربانی کے نتیجہ میں اللہ کی مغفرت فرما دے۔

ماں کےم رنے کی خبر سن کر بھی معاشرے کے خ و ف سے دوستوں کے سامنے اپنےغ م اور آنسو کو پی کر مسکراتی رہی روتی بھی تو کس سے روتی جاتی بھی تو کہا جاتی نہ تو میرا کوئی خاندان تھا۔ نہ کوئی گھر فاخرہ باجی بھی دوسال پہلے فارغ ہو کر یہاں سے جاچکی تھیں۔ میرا سکول ہی میری کل کائنات اور فاخرہ باجی ہی میرا آخری سہارا بالآخر انہوں نے ہی میرا آنسو پوچھا مدرسہ آئیں۔ اگلے چھ مہینے کی اسکول کی فیس جمع کی اسکول کے فراغت کے بعد اپنے گھر لے گئیں۔ فاخرہ باجی کا دیندار گھرانہ مجھے بیٹی کی طرح مانتا تھا۔ معاشرہ لاکھ برا ہو پر آج بھی نیک لوگوں کی اس دنیا میں کمی نہیں ۔ فاخرہ باجی کے ابا نے ذاکر حسین کالج میں بی اے میں ایڈمیشن کرادیا۔ اور ایم اے کے لیے جامعہ بھیج دیا۔ اور یہاں تم جیسے دیوانے سے ملاقات ہوگئی۔ عزیز مجھ سے کسی خیالی امید کے بجائے یہ بات اپنے دامن میں باندھ لو۔ فاخرہ باجی کے دیندار گھرانے کی عظمت میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ آج کے بعد میری اور تمہاری کوئی بات نہیں ہوگی۔ اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو اس محبت کی قسم میرے اس راز کو راز رکھنا اور اگر اپنانا چاہتے ہو تو باوقار طریقے سے اپنے والدین کے ساتھ فاخرہ باجی کے گھر آنا اور فاخرہ باجی کے ابا سے میرا ہاتھ مانگ لینا۔ وہ بڑے بے باک انداز میں میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے درد کو میری آنکھوں میں انڈیل کر چلی گئی۔ اس کے بے باک سوالوں کا نہ تو م ر ے پاس کوئی جواب تھا۔ اور نہ سچی محبت ثابت کرنے کی ہمت ، ذات پات، حسب ونسب کے فرسودہ رسم ورواج میں بندھا میرا گھر انہ نہ تو فائزہ کو قبول کرتا اور نہ گھر سے بغاوت کرنے کی میرے اندر جرات گھنٹو ں وہیں بیٹھا اپنی جھوٹی محبت اور پیشمانی پر ماتم کرتارہا۔ اور اس کی عفت اور عظمت کو سلام کرتارہا میں اپنی ہی نظروں میں اس قدر چھوٹا ہوا کہ دوبارہ اس سے نظر ملانے کی ہمت نہ رہی لیکن میرے دل میں اس کی عزت وعظمت اور بڑھ گئی۔ امتحان ختم ہوگیا۔ میں گھر چلاگیا۔ والد صاحب کی نوکری چھوت گئی ۔

میرے اوپر ذمہ داری آگئی۔ دہلی آکر نوکری ڈاٹ کام اپنا کوائف نامہ (سی وی) پوسٹ کیا۔ اور خانہ فرہنگ ایران کی لائبریری میں وقتی طور کام کرنےلگا۔ کچھ ہی دن بعد نوکری ڈاٹ کام سے فون آیا کہ سعودی عرب کا ویزہ ہے اگر جانا چاہتے ہیں۔ تو پاسپورٹ لے کرآجاؤ۔ موقع کو غنیمت سمجھا اور سعودی عرب چلاگیا۔ پانچ سال بعد سعودی عرب سے واپس آیا۔ لکھنؤ ائیر پورٹ سے باہر نکلا ۔ ٹیکسی لے کر ہوٹل جارہاتھا۔ کہ راستے میں میری نظر ایک کار پر پڑی ۔ کالا چشمہ لگائے ڈرائیور کرنے والی عورت ہو بہو فائزہ کی طرح تھی۔ لیکن فائزہ تو دہلی میں رہتی تھی ۔ یہاں کیسے ؟ دل نہیں مانا اگلی ریڈ لائیٹ پرکار رکی۔ جلدی سے اتر کر کار کے پاس گیا۔ کار کے بند شیشے کے باہر سے ہاتھ ہلا کر سلام کیا وہ دیکھتے ہی پہچان گئی۔ جلد ی سے کار سے باہر نکلی علیک سلیک ہوئی خیریت دریافت کی ۔ مجھے دیکھ کر وہ بے انتہاء حیرت میں تھی۔ کہ اسی لمحے گرین لائیٹ ہو گئی۔ جلدی سے اس نے کار کو سائیڈ پر لگایا۔

اس سے بتایا کہ پانچ سال بعد سعودی سےآرہاہوں۔ گھرجارہاہوں۔ اور کوئی ہے ساتھ میں نہیں اکیلاہوں۔ تو گھر چلوں۔ آج یہیں رکو کل چلےجانا۔ ارے نہیں ایسے کیسے گھر پر لوگ انتظار کررہے ہونگے۔ پھر کبھی آؤں گا۔ نہیں تمہیں آج رکنا ہوگا۔ گھبراؤ مت میرا یہاں اپنا گھر ہے ۔ ایک بیٹی ہے میرے شوہر تمہارے دوستوں میں سے ہیں۔ میرے دوست کیسے چلو سب بتاتی ہوں تم ہمیشہ جلدی میں رہتے ہو اتنی جلدی کیا میرے شوہر تم سے مل کر بہت خوش ہوں گے۔ باتوں باتوں میں میرا سامان ٹیکسی سے نکلوا کر اپنی کار میں رکھوایا اور مجھے لے کر گھر کی جانب چل پڑی۔ عزیز میں بیٹی کو سکول چھوڑ کر یونیورسٹی جارہی تھی۔ لیکن آج نہیں جاؤں گی۔ تم میرے مہمان ہو ۔ برسوں بعد اچانک ایسے ملے ہو، اس دن کی طرح آج بھی وہی بولتی رہی میں سنتا رہا، اس سے مل کر ایسا لگا میں آج بھی شرمندہ ہوں۔ جب وہ چپ ہوئی تو میں نے پوچھا لکھنؤ کیسے مسکراتے ہوئے بولی عزیز پھر تم کو ایک اور کہانی سننی پڑے گی۔

سناؤ میری قسمت میں تو کہانی سننا ہی لکھا ہے۔ عزیز قسمت روایتوں اور رواجو ں سے نہیں اس کو بدلنے سے بدلتی ہے۔ تمہارے اندر جذبہ تو تھا۔ لیکن ہمت نہیں خیر جہاں سے تم چھوڑ گئے تھے۔ وہیں سے شروع کرتی ہوں۔ ایم اے کے امتحان کے بعد میں نے تمہارا بہت انتظار کیا کہ اگر تم مجھ سے شادی کر لو گے ۔ تو میں اپنا گھر بسا کر نئی زندگی کی شروعات کر لوں گی۔ فاخرہ باجی کا گھر میرا گھر ہی تھا۔ کوئی پریشانی تو نہیں تھی۔ لیکن میں اپنے آپ کو ایک بوجھ سمجھتی تھی۔ سوچا کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرکے پی ایچ ڈی میں رجسٹریشن کرالوں گی۔ لیکن میر ی خوبصورتی میری جان کا وبال تھی۔ جہاں جاتی لوگ بری نظر سے دیکھتے ۔ فاخرہ باجی کے ابا بھی چاہتے تھے میرا کہیں نکاح ہوجائے ۔ لیکن میری خوبصورتی کے باوجود کوئی رشتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتا فاخرہ باجی کے ابا کی طرح اعلیٰ ظر ف لوگ کم ہی ہیں۔ ان کے سارے رشتہ دار مجھ کو جانتے تھے کچھ لوگوں نے تو میری وجہ سے ان کے یہاں آنا جانا بھی کم کردیاتھے۔ اللہ سے دن رات دعا کرتی ۔ اللہ کہیں میرا نکاح ہوجائے۔ اللہ نے میری یہ بھی دعا قبول کر لی۔ ہمارے کلاس میٹ قمر نے بھی تمہاری طرح مجھے آفر کی تھی۔ وہ بھی اچھا لڑکا تھا۔ اس سے بھی میں نے وہی باتیں کی جو تم سے کی تھی ۔ کچھ دن بعد وہ اپنے والد کو لے کر گھر آیا۔ اس کے والد بھی صوم وصلاۃ کے پابند انتہائی شریف آدمی ہیں۔ فاخرہ باجی کے ابا کو بہت پسند آئے اور رشتہ طے ہوگیا۔

دس دن کے بعد نکاح ہو گیا۔ میں قمر کے ساتھ رہنے گی ۔ بی ایڈ کرنے کےبعد قمر کو ہمدرد پبلک سکول میں نوکری مل گئی۔ ذاکر نگر میں کرائے کامکان لے لیا۔ قمر کی والدہ کا انت قال ہوگیا تھا۔ والد صاحب اکیلے چچا کے یہاں رہتے تھے۔ تو ان کی بھی اعظم گڑھ سے یہیں بلالیا۔ قمر کے والد کی اجازت سے میں نے بھی پی ایچ ڈی میں رجسٹریشن کرالی ۔ الحمداللہ۔ د وسال بعد مجھے بھی نوکری مل گئی۔ اور اس طرح میں بھی قمر کا ہاتھ بٹانے لگی۔ تین سال میں پی ایچ ڈی کےلیے مقالہ جمع کروا دیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی میں اردو لیکچرار کی پوسٹ خالی تھی ۔ میں نے اپلائی کی اور ہوگیا۔ قمر بھی میری وجہ سے ہمدرد پبلک سکول چھوڑ کر لکھنؤ آگئے۔ ان کی بھی پی ایچ ڈی مکمل تھی ۔ خواجہ غریب نواز یونیورسٹی میں وہ بھی پڑھا رہے ہیں۔ فاخرہ باجی کہاں ہیں۔ ان کے ابا کیسے ہیں۔ دہلی میں ہی ہیں جاتی ہو۔ ان سے ملنے اتنے اعلیٰ ظرف انسان کو کیسے بھول سکتی ہوں۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں۔ انہیں کی مرہون منت تو ہوں۔ وہ میرا گھر ہے ۔

کیوں نہیں جاؤں گی۔ بلکہ فاخرہ باجی کے ابا کو یہیں لے آتی ہوں قمر کے ابا اور ان کے مزاج ایک جیسے ہیں۔ دونوں میں بڑے اچھے تعلقات بھی ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتہ تو دہلی گئے ہیں۔ فاخرہ باجی دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں تم نے تو اپنے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں میں ہی بولے جارہی ہوں ۔ پڑھائی کیوں چھوڑ دی ۔ تم اس دن کے بعد ایسا غائب ہوئے جیسے گدھے کے سرس ے سینگ ، جب میں نے تمہیں بہت دنوں تک نہیں دیکھا تو اپنے آپ سے بہت شرمندہ ہوئی اپنے آپ کو کوستی رہی کہ شاید میری وجہ سے تم یونیورسٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ ہاں فائزہ شرمندہ ہی نہیں بلکہ اپنی نظروں میں ہی گرگیا۔ تم سے نظر ملانے کی ہمت نہیں تھی۔ کہ ہم لڑکے صرف سچی محبت کا ڈھونگ رچا تے ہیں۔ جب ثابت کرنا ہو تو ہارے جاتے ہیں۔

یونیورسٹی چھوڑنے کی وجہ یہ تو نہیں میرے معاشی حالات کچھ ایسے ہوگئے کہ چھوڑنا پڑا ۔ شادی ہوگئی تھی ۔ ذمہ داری بڑھ گئی تھی ۔ ابا کی نوکری چھوٹ گئی ۔ آنا فانا کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ سعودی عرب چلاگیا۔ تب سے وہیں ہوں ۔ ہرحال میں اللہ کا شکر ہے۔ اسی دوران دروازے پر دستک ہوئی ، لگتا ہے قمر آگئے ۔فائزہ نے دروازہ کھولا قمر مجھے دیکھ کر چیخ پڑا ۔ ارے عزیز! میرے دوست آج برسوں بعد دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ کیسے آنا ہوا بس ا چانک فائزہ سے ملاقات ہوئی اور تمہاری یہ بیوی نے جانے نہیں دیا یہ کہہ کر میرے پیر باندھ دیے کہ قمر سے نہیں ملو گے تو بغیر ملے کیسے چلا جاتا ہے بہت شکریہ دوست بہت اچھا لگا اچھا فائزہ اب اجازت دو مجھے بھی گھر جانا ہے۔ میرے بیوی بچے بھی پانچ سے میرا انتظار کررہے ہیں۔ زندگی رہی تو پھر ملاقات ہوگی ۔ قمر نے مجھے بس اسٹینڈ چھوڑا ۔ اسی طرح میری محبت اور میرے سفر کا آج اختتام ہوگیا۔

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *