اپنے آپ کے لیے خود ہی سب کچھ بنیں ، باقی لو گ تو قصے کہانیاں ہیں کو ختم ہوجاتے ہیں۔مسکرائیں اور آگے بڑھ جائے اس سے اچھا اور کیا انت قام ہوگا۔ عاجز ی اس بات کو تسلیم کرنے میں بھی ہے کہ کائنات کی کوئی بھی مخلوق ممکنہ طور پر ہمیں وہی سبق دیتی ہے جسے ہم نظرانداز کرتے ہیں۔ جب کسی کافریب کھل جائے تو اسے مزید پرکھنا سراسر بے وقوفی ہے سچ ازخود سامنے آجائے گا اور منظر میں آپ کی جگہ نہ رہے تو وہاں مزیدرہنا حماقت ہے۔ یا د رکھیں ہر مجبوری مقدرکا لکھا نہیں ہوتی سب سے اہم یہ کہ مجبور ی کو مقدر کے کھاتے میں ڈال دینے سے ہی بھی ہمیں نہ تو اختیار واپس ملتا ہے۔
نہ آزادی اور نہ ہی جھیل لینے کی مدت میں کوئی تخفیف ملتی ہے۔ غ صہ ہمیشہ بے وقوفی شروع اور شرمندگی پر ختم ہوتا ہے۔ اپنے منصوبے کاپہلے سے اعلان نہ کرو اگروہ کامیاب نہ ہوا تو لوگ مذاق اڑائیں گے۔ جھ وٹ بولنے کا نقصان یہ ہے کہ اس کے بعد تو سچ بھی بولے گا تو کوئی بھی تیری بات کایقین نہیں کرےگا۔ ہرنئی چیز اچھی لگتی ہے۔ لیکن دوستی جتنی پرانی ہو اتنی عمدہ اور مضبوط ہوتی ہے۔ میں خدا سے ڈرتا ہوں اور خدا کے بعد اس شخص سے ڈرتا ہوں جو خدا سے نہیں ڈرتا۔ دوستی کو برباد کرنے کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں کہ دوست کے ساتھ ہر بات پر اختلاف کرنے لگے۔
دعا کی قبولیت آواز کی بلندی نہیں بلکہ دل کی تڑپ کا تقاضا کرتی ہے۔ کیونکہ دعا صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں روح کی طلب اور کیفیت کا نام ہے۔ ہمیشہ دعا مانگتے رہا کریں کیونکہ ممکن اور ناممکن تو صرف انسان کی سوچ میں ہے اللہ کے لیے تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ ایک عادت انسان کو بہت سا اندرونی حوصلہ بخشتی ہے وہ ہے اللہ کے ہاں ہمیشہ نیک گمان رہنا۔ کڑے امتحانوں سے گزرنا ، نمٹنا ، بکھرنااور اس کے باوجود ہر مرتبہ اللہ سے ہی رجوع کرنا۔ اس ایمان کے ساتھ کہ جس نے امتحان کے لیے منتخب کیا ہے اس پر پورا اترنے کا حوصلہ اور ہمت بھی وہی عطا فرماتا ہے
اللہ سے رجوع کرتے رہنے سے ہی ہر رستہ آسان ہوتا ہے۔ جب ہم سے کوئی غلطی ہوتی ہے تو ہم یہ کہہ کر مع افی مانگتے ہیں کہ انسان ہوں مع اف کردے۔ لیکن کیا ہم دوسروں کو بھی اسی انسانیت کے تحت مع اف نہیں کرسکتے ؟ انسا ن کو انسان مان کر اس کو مع ا ف کرنا ہی انسانیت ہے۔ دنیا میں واحد ہستی ہے باپ کی ہے جو ساری زندگی اولاد کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ خوبصورت زندگی خو د بخود نہیں بنتی اس کی تعمیر روزانہ کی دعاؤں پر ہوتی ہے۔ دعا کیجیے، دعادیجیے، دعالیجیے۔ کبھی حالات کو اپنے مطابق ڈھالیں اور کبھی کبھی حالات کی مطابق ڈھل جائیں اور چلتے جائیں۔