! ایک نابا لغ لڑکی کے ساتھ ایک بہت بڑے اور نامی گرامی ہوٹل میں 11 لوگون نے بر ائی کر ڈالی۔ خبر حیران کن حد تک افسوس ناک تھی لیکن پھر بھی ذہن میں کچھ کیڑے سر اٹھانے لگے۔ ایک بہت بڑے ہوٹل میں وہ لوگ لڑکی کو بنا اسکی مرضی کے لے کر پہنچ کیسے گئے ؟ ہم کو تو ایک لڑکی کا نام پوچھنے میں مہینوں لگ جاتے۔
سالا کون اتنا مہا کھلاڑی شکاری تھا جو لڑکی کو سیدھا ایک فائیو سٹار ہوٹل کے پائی۔ معاملہ میری سمجھ میں فٹ نہیں ہو رہا تھا۔ بہت غور کیا ۔ ایک دوست کی طرف نکلا اتفاق سے اسکے آفس میں ٹی وی پر نیوز چل رہی تھی جس میں مرکزی شخص کی تصویر بھی دکھائی جا رہی تھی۔جا رہی تھی۔ جو حکمران پارٹی کا کارکن ہے۔ دوست نے سٹوری سنائی کہ یہ ایک لڑ کی کو ہوٹل میں لے کر گئے تھے اور وہاں اس کے ساتھ 1 کے بجائے 11 بندو ں نے کار وائی ڈالی۔
اب یہ مفرو ر ہے۔ اگرچہ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے مگر اتنی قبیح حرکت کیسے ؟ میرے شیطانیدماغ نے تانے بانے جوڑنا شروع کر دئیے۔ایک لڑکی جو 14 سال کی بتائی جا رہی ہو۔ تھوڑی دیر بعد 15 سال کی ہو چکی ہو۔ ماڈل بننا چاہتی ہو اور ملز م نے اسے ماڈ ل بننے کا جھانسہ دیتا رہا ہو ۔ معاملہ جلیبی کی طرح سیدھا تھا۔ ایک مفروضہ بناتے ہیں۔ ایک 15 سالہ لڑکی جو ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہو وہ آزادانہ کسی امیر لڑکے سے جا کے ملتی ہے۔ ماڈل بننے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ اور شیطا نوں کے جھا نسے میں آ رہی ہے۔ ایسی صورت میں وہ ذہنی طور پر نابالغہو سکتی ہے ؟
یا کیا اسکی عمر واقعی 15 سال ہی ہوگی ؟ فرض کر لیتے ہیں کہ اسے ایک ہو ٹل میں بلایا گیا۔ یعنی وہ اپنی مرضی سے گئی۔ بنا مرضی کے کسی ہوٹل (جس کا نام خراب نہ ہو اس لئے اسے گیسٹ ہاؤس کہا جا رہا ہے) میں لے جائی جا سکتی ہے ؟ اور وہ بھی ایسی صورت میں کہ ایک بند ے نے روم بک کیا ہو اور اپنے ساتھ 10 لوک لے کر آئے ایک اکیلی لڑ کی کے ساتھ ؟ کوئی بھی شخص جس کا کسی پارٹی کے عہدہ داروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہو دولت کی ریل پیل ہو وہ خود کو فرعو ن سے کم نہیں سمجھتا۔
اور یقیناًاس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہوگا۔ لڑکی نے اتنے زیادہ لوگ دیکھ کے تعاو ن کرنے سے انکار کیا ہوگا۔ تمام لوگ ن شے میں ٹن۔ بد تمیزی ہوئی ہوگی جس پر لڑکی نے لڑکے کے منہ پر تھپر مار دیا ہوگا۔ اب ایک لڑکی جو خود اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ ایک کمرے میں موجود ہو اور تعاون نہ کرے بلکہ تھپرمار دے تو اس بندے کی انا کس قدر مجروح ہوئی ہوگی اور پھر دمادم مست قلندر ہوا۔ سب چڑھ دو ڑے۔ یہیں رک جائیں۔چڑھ دوڑے ہاں۔ سالا ایک بہت بڑ ے ہوٹل میں ایک لڑکی کے ساتھ
11 بندے زیاد تی کر رہے ہیں اور ساتھ والے کمرے میں آواز تک نہیں جا رہی ؟ عجب نہیں لگے گا ؟ ایک لڑکی جو دو دن سے گھر سے غائب ہے۔ اور بننا بھی ماڈل چاہتی ہے تو کیا اس کے گھر والوں کو علم نہیں ہوگا کہ ہماری بیٹی اسی سلسلے میں کسی سے ملنے گئی ہے ؟میرا مقصد کسی پر الز ام ترا شی کرنا نہیں بلکہ خود یہ سمجھنے کی کوشش ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں پہلے اس معاشرے کے حالیہ چال چلن کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
یہ بات سیکس کے متعلق ہے اور لڑکی کا بھی مبینہ طور پر ر یپ ہوا۔ پہلے پہل سنا جاتا تھا کہ جسمفروشی کا دھندہ گرلز ہاسٹل اور یونیورسٹیوں میں بڑی خاموشی سے ہوتا ہے۔ لیکن میری معلومات کے مطابق اب یہ یونیورسٹی سے نکل کر کالج اور سیکنڈری سکولوں تک پہنچ چکا ہے۔ اور اس کے پیچھے کوئی باقاعدہ نیٹ ورک نہیں ہوتا۔ یہ شروع ہوتا ہے احساس محرومی سے اور مقابلے کے رجھان سے۔ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے ہر دوسری لڑکی کے پاس سمارٹ فون موجود ہے اور وہ سمارٹ فون کہاں سے آتا ہے یہ کوئی نہیں سمجھنا چاہیے گا۔ گھر بیٹھے بیٹھے اس سمارٹ فون میں ایزی لوڈ کہاں کہاں سے آجاتا ہے یہ کوئی سمجھنا نہیں چاہے گا۔۔
۔مرد ذات پیدائشی شکاری ہوتی ہے اور اسکی جنسیتسکین اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ کم سن سے کم سن تر ین لڑ کی کا شکا ر کرے۔ ہر مرد اپنی زندگی میں شکاری ہے اور جو اب بال بچوں والے ہو گئے ہیں اور شکار کی قا بلیت کھو بیٹھے ہیں وہ بھی کم سے کم خیالی شکار کرنا نہیں چھوڑتے ۔ مرتے دم تک ان کے تخیل میں کم سن خو نریزی شامل حال رہتی ہے۔ اب ہوتا کیا ہے۔ ہرسکول ، کالج اور یونیورسٹی میں امیر لوگوں کے بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور غریب لوگوں کے بھی۔
جب لڑکی اپنی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی کے پاس مہنگا ترین موبائل دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ یہی موبائل میرے پاس بھی ہو۔ جب و ہ ہر روز اپنی سہیلی کو نئے اور مہنگے کپڑے پہنے دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ وہ بھی اسی طرح کے کپڑے پہنے۔ جب وہی لڑکی مہنگے کاسمیٹکس اور پرفیوم اپنی سہیلی کے چہرے پر تھوپے دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ وہ بھی ان چیزوں کو استعمال کرے۔ جب وہ اپنی سہیلی کے بوائے فرینڈ کو اپنی سہیلی کے ساتھ روز یا ہر دوسرے دن میکدونلڈ میں برگر کھانے جاتا دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ وہ بھی ہر روز کسی کے ساتھ برگر کھانے جائے۔
کوئی اسکا بھی ایسے ہی نخرے اٹھانے والا دوست ہو۔ یہاں سے اپنی مرضی سے جسمفروشی کی سوچ کا بیج ڈل جاتاہے۔ اور کمال منافقت یہ ہے کہ نہ لڑکی اسے جسمفروشی ماننے کو تیار ہوتی ہے نہ لڑکا سمجھتا ہے کہ وہ جسم خرید رہا ہے۔ بلکہ دونوں ا سے پیار اور گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کا نام دیتے ہیں۔ اب یہ مجھے بتانے کی شاید ضرورت نہیں کہ ایک ہی لڑکی یا لڑکے کے بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ اکثر بدلتے بھی رہتے ہیں۔ غریب لڑکی چاہے گی کہ اسکا بوائے فرینڈ گاڑی والا ہو۔ اور کھانا پینا ، گھومنا پھرنا مہنگے تحفے دینا معمول کی بات ہو۔ ہر گھر میں ڈش یا کیبل ٹی وی موجود ہے
جس کی وجہ سے سیکس پسند ہونا یا سیکسکی ترغیب پانا دونوں جنسوں کیلئے کوئی بڑی بات نہیں۔ پہلی ملاقات میں نہ سہی دوسری تیسری یا چوتھی ملاقات میں بات سیکسپر آ ہی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں لڑکی چاہیے گی کہ بس اب لڑکا میرا رشتہ مانگے اور شادی ہو جائے۔جب کہ لڑکے کی وہ پہلی شک ار نہیں ہوتی اسے اور بھی شکا ر کرنے ہوتے ہیں۔ اور شادی اپنی والدین کی مرضی سے یا خود سے اچھے اور پیسے والے گھر میں کرنی ہوتی ہے۔لڑکی کی عز ت جا چکی ہوتی ہے اور شادی کی طرف نہ جانے کی صورت میں بریک اپ ہو جاتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ تمام سہولیا ت بھی چلی جاتی ہیں
جن کی اب وہ عادی ہو چکی ہے۔ کیونکہ چیزوں کی طلب شاید کم ہو سکتی ہو لیکن جسمکی طلب ایسی طلب ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ایسی صورت میں اسے ایک اور بوائے فرینڈ کی ضرورت پڑتی ہے ۔ پھر ایک اور پھر ایک اور ۔ شادی کی عمر تک پہنچتے پہنچتے سالا اسے خود بھی یاد نہیں ہوتا کہ کتنے معرکے سر ہو چکے ہیں۔ یاد رہے۔ یہ جسمفروشی کی نئی اور ماڈرن قسم ہے جس میں دونوں پارٹیاں اسے محبت اور فن کا نام دیتے ہوئے
جسم فروشی ماننے کو تیار نہیں ۔ ایک طوائفاگر اپنا جسمپیچ کے اپنے بچوں کیلئے رو ٹی خریدے تو وہ جسمفروشی ہوئی۔ اور ایک سٹوڈنٹ اگر آئے روز اپنا پارٹنر بدلے۔ روز پیسے لے۔ ایزی لوڈ مانگے۔ موبائل گفٹ میں لے لباس لے ، پرفیوم لے تو یہ جسمفروشی نہیں۔ ایسا کیوں ؟یہ دوہرا معیار صرف ہمارے معاشرے میں ہی کیوں؟۔جاری ہے۔میں یہاں مرد ذات کو ڈیفینڈ نہیں کر رہا صرف یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ حضور تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ سیکس ایک ایسا عمل ہے کہ سالا اس میں اگر خود اپنی بیوی بھی راضی نہ ہو تو یہ عمل مکمل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔
اور کسی کی مرضی کے خلاف سیکسمیری نظر میں بہت ہی مشکل سے ہو پاتا ہے۔اور ایسے کیس بہت کم ہوتے ہیں۔ باقی تمام کیسز میں زیادہ تر مرضی دونوں طرف سے شامل ہوتی ہے لیکن یہاں مرد اپنی خباثتچھپانے میں ناکام ہو جاتا ہے کیونکہ اسے اپنے دوستوں کو بھی اس سیکس کی پوری رواد سنانی ہوتی ہے۔ مرچ مصالحہ لگا کے اپنی مردا نگی اپنے دوستوں پر ثابت کرنی ہوتی ہے اور پھر اپنی مر دانگی دکھانے کیلئے وہ اس سے بھی گھٹیا حرکت کا مرتکب ہوتا ہے کہ چلو بھائی مل بانٹ کر کھاتے ہیں۔ایک بارلڑکی کسی لڑکے کے ساتھ لیٹ گئی بس پھر وہ بے بس ہے پھر اسے ہر بار بلانے پر جانا بھی ہوتا ہے
اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں لڑکے کی طرف سے بنائی گئی فلم اور ننگی تصویریں بھی افشاں ہو جانے کا ڈر ہوتا ہے۔۔جاری ہے۔ پھر جب لڑکا اپنے دوستوں کے ساتھ اس شکا ر کو مل بانٹ کے کھاتا ہے تو لڑکی کی حال ت غیر ہو جانے پر معاملہ ہسپتال تک پہنچ جاتا ہے اور پھر پو لیس تک۔ اب دونو ںآ فیشلز کو پیسے درکار ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ کیس بن جاتا ہے۔ اب لڑکی اگر اپنی مرضی سے کئے گئے سیکسکو قبول کرے تو اسکی شا مت ۔
اسی لئے لڑکی کے پاس ایک ہی حل رہ جاتا ہے کہ بڑی آسانی سے کہہ دے کہ میرا ریپہوا ہے اس میں میری کوئی مرضی شامل نہیں تھی۔ایسی تمام وا رداتیں سکول ، کالج و یونیورسٹی ٹائمنگ میں ہی ہوتی ہیں اور گھر بیٹھے والدین کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی کہ باہر کیا کیا گل کھلائے جا رہے ہیں۔ اور نہ ہی یہ جاننے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ لڑکی کے پاس ہر چیز کی فراوانی کیسے ہو گئی ؟ روز 50 روپے خرچہ لے جانے والی لڑکی کے پاس مہنگے موبائل،
کپڑے، پرفیوم کہاں سے آگئے۔ یہ بھی ایک جسمفروشی ہے۔۔جاری ہے۔ ایک سٹوری سناتا ہوں۔ ایک دکان میں ایک ورکر کام کرتا تھا۔ اور 3000 ہزار روپے تنخواہ میں اس نے بچت کر کر کے گاوں میں اچھی خاصی زمین بھی خرید لی مال مویشی بھی خرید لئے۔ اور دکان کا مالک سب لوگوں کو فخر سے بتابتا بھی ہے کہ محنتی لڑکا ہو تو اس جیسا ۔ سالا اسکو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اسکی اپنی تشریف بجا کے یہ سب چیزیں بنائی گئی ہیں۔قصور اس میں لڑکی کا ہرگز نہیں ہوتا بلکہوالدین کا ہوتا ہے جو اپنی اولاد کو قناعت کرنا نہیں سکھا پاتے۔
وہ یہ سمجھانے سے قاصر رہ جاتے ہیں کہ اچھائی اور عظمت مہنگے لباسوں میں نہیں اپنی عزت اور انا کو برقرار رکھنے میں ہے۔ اپنے گھر کی خواتین کو ستی ساوتری سمجھ لینے سے مسائل حل نہیں ہو جاتے۔ ان کی جائز ضرورتوں کو پورا کرنے اور انکو احساس محرومی کا شکار نہ ہونے دینا بھی گھر والوں کی ذمہ داری ہوتا ہے ۔ لیکن کیا کریں دوسروں کی ماوں بہنوں پر ہر وقت گندی نظر رکھیں گے تو یہ بھی یاد رہے۔جاری ہے۔ کہ آپ کے پاس صرف دو آنکھیں ہیں
جو کسی کو بری نظر سے دیکھتی ہیں۔ لیکن معاشرے کےپاس کروڑوں آنکھیں موجود ہیں۔ بچوں کی تربیت ایسی کریں کہ ہر لڑکا شکا ری نہ بنے اور ہر لڑکی صرف چیزوں کے بل بوتے پر خوبصورت اور اچھا لگنے کا فلسفہ نہ اپنائے۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہی اس معاشرے کا ننگا سچ ہے۔ٍاس تمام بکواس کا مطلب کسی پر کیچڑ اچھالنا ہرگز نہیں بلکہ یہ وہ کڑوی سچائی ہے جو ہر دوسرے گھر میں ہو رہی اور ہمیں اس کی کانوں کان خبر نہیں۔ عزتسب کی سانجھی ہوتی ہے اور اللہ تمام لوگوں کی عزتوں کو محفوظ رکھے۔ ہوتی ہے اور اللہ تمام لوگوں کی عزتوں کو محفوظ رکھے