Home / آرٹیکلز / ”میری کامیابیوں سے مجھے مت پرکھو“

”میری کامیابیوں سے مجھے مت پرکھو“

’’آپ کے خیال میں کامیابی کیا ہے؟‘‘میں نے ہال پر ایک گھمبیر نظر ڈالی اور حاضرین سے سوال کیا۔اگر آپ کو مرضی کے مطابق سب کچھ مل جائے توکیا آپ پھر بھی خوش ہوں گے؟ شہرت اور پیسے والا انسان کامیاب نہیں بلکہ کامیاب وہ انسان ہے جو دوسروں کے لیے فائدہ مند ہے’’ سیون فگر سیلری ‘‘ ایک جانب سے آواز آئی۔’’اپنا کامیاب بزنس ہو۔‘‘ دوسری آواز آئی۔’’لوگ آپ کو کامیاب سمجھیں۔‘‘ ،’’لوگ آپ سے آٹوگراف لینا چاہیں اور آپ کے ساتھ سیلفی بنانا چاہیں۔‘‘،’’آپ ایک سپر سٹا رہوں۔‘‘،’’آپ ورلڈ فیمس ہوں۔‘‘ مختلف طرح کے جوابا ت آرہے تھے۔
میں مسکرایا اور بولا:
’’ آپ سب کے جوابات اپنی جگہ درست ہیں لیکن ۔۔!!‘‘ میں نے ایک لمحے کاتوقف کیا اور پھر اپنے سلسلہ کلام کو جوڑا۔’’یہ معاشرے کے معیار ہیں۔یہ بنے بنائے سوشل سٹینڈرڈز ہیں جو بچپن سے ہی موقع بہ موقع ہمارے ذہنوں میں ڈالے گئے ہیں۔بڑی تنخواہ والی نوکری،شاندار گاڑی ، خوبصورت بنگلہ اور نوکر چاکر ، یہ سب وہ سوچ ہے جو معاشرے کی ہے اور معاشرہ ان چیزوں کی بنیاد پر لوگوں کے کامیاب یا ناکام ہونے کا فیصلہ کرتا ہے، لیکن آپ کی نظر میں کامیابی کیا ہے ؟اپنے دِل سے پوچھیں ۔آج اگر آپ کے پاس یہ سب چیزیں آجائیں تواس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آپ خوش بھی ہوں گے؟‘‘ہال میں سکتہ طاری ہوگیا۔ہر بندہ مجھے بڑی حیرت سے دیکھ رہا تھا ۔میں ایک بار پھر گویا ہوا۔
’’ایک با ت یاد رکھیں کہ اگر آپ محنت کرکے کسی سوال کا جواب نہیں ڈھونڈتے توپھر یہ ہوگا کہ اس چیز کے متعلق جو بنی بنائی معلومات ہیں وہ آپ کے گلے پڑجائیں گی۔کامیابی کے بارے میں آپ کا جوبھی تصور ہے آپ کی پوری زندگی اس کے گر د گھوم رہی ہوتی ہے ۔اگر آپ زیادہ پیسے کمانے کوکامیابی سمجھتے ہیں تو آپ کارہن سہن اور سوچ وفکر بھی اسی سوچ کے مطابق ہوگی ۔آپ کا ہر کام اسی سوچ سے شروع ہوگا ۔آپ کسی بھی کام کو اسی سوچ کے ترازو میں تولیں گے ۔ممکن ہے کہ آپ محنت کریں ، دن رات ایک کریں اوراس مشقت بھرے سفر میں اپنے پائوں لہولہان کرکے منزل تک پہنچ بھی جائیں لیکن ۔۔۔آپ زندگی کو کھودیں گے ۔‘‘میں نے لمحے بھر کے لیے توقف کیا ، پانی کے گلاس سے گھونٹ بھرا اور پھر بولا:
’’رابن ولیم کو کون نہیں جانتا ۔اس کو دنیا کا ایک عظیم مزاحیہ اداکار کہا جاتا ہے۔اس نے کئی دہائیوں تک لوگوں کے دِلوں پر راج کیا۔وہ اسٹیج کا بادشاہ تھا۔اس کی مزاحیہ حس اتنی شانداتھی کہ صرف امریکہ ہی میں نہیں ،بلکہ پوری دنیا میں اس کے چاہنے والے موجود تھے۔’’مورک اینڈ مینڈی‘‘ اس کاوہ پروگرام تھا جس نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑدئیے تھے ۔ٹائم میگزین نے اس کی تصویر کو اپنے ٹائٹل پر چھاپا ۔

اس کواپنی شاندار پرفارمنس پر دو ایمی ایوارڈ ز، چار گولڈن ، دو اسکرین ،پانچ گریمی ایوارڈز اورآخرکار آسکر ایوار ڈ بھی دیا گیا۔پیسہ ،شہرت،گاڑی، بنگلہ اور ایک پرتعیش زندگی ، اس کی زندگی میں کسی چیزکی کمی نہیں تھی۔اس کے پاس وہ سب کچھ تھا جس کا ایک عام انسان صرف خواب دیکھ سکتا ہے۔اگر میں آپ کے جواب کے تناظر میں رابن ولیم کوپرکھوں تو سیدھا جواب یہی آتا ہے کہ وہ ایک کامیاب ،خوش قسمت اور پرسکون زندگی گزارنے والا شخص تھا ،جس کی زندگی میں کوئی محرومی نہیں تھی لیکن۔۔۔ یہاں آکر یہ سب پیمانے غلط ثابت ہوجاتے ہیں جب 11اگست 2014کو وہ اپنے گھر میں خودکشی کرلیتا ہے۔تحقیق کرنے پر معلوم ہوتاہے کہ وہ کوکین کا عادی بن چکا تھا اور اس کی زندگی ڈپریشن سے بھرپور تھی ۔‘‘
’’ ہم ساری زندگی اسی کوشش میں گزاررہے ہوتے ہیں دنیا ہمیں ایک کامیاب انسان تسلیم کرلے۔مطلب ساری زندگی کی بھاگ دوڑصرف دوسروں کو دِکھانے کے لیے ہے ، اس بات کے لیے نہیں کہ میں اپنی کامیابی کو انجوائے کروں ۔اگر محنت و مشقت کے بعد ایسا ہوبھی جائے کہ دنیا آپ کو کامیاب مانے اور آپ کی شہرت کے چرچے چاروں طرف پھیل جائیں لیکن آپ خود میں جھانکیں تو آپ کو اس تلخ حقیقت کا سامناہو کہ میں تو اندر سے وہ ہوں ہی نہیں جو دنیا مجھے سمجھتی ہے۔آپ جب بھی اپنے من میں ڈوبیں تو وہاں آپ کو خالی پن کے سوا کچھ نہ ملے۔‘‘
’’پچھلے50 سالوں میں انسانی ترقی کے حوالے سے کچھ نئے پیمانے بہت زیادہ زیر بحث رہے ہیں۔دنیامیں مختلف طرح کی تبدیلیاں آئیں ۔آپ انسانی ارتقاء پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ اس زمین پر ایک وقت ایسا بھی تھا جس میں انسان کے پاس کرنے کاکا م صرف کھیتی باڑی تھی ۔اس میں تعلق، بیوپار اور روزگار جنس کی بنیاد پر تھا ۔اس وقت کا انسان روٹی ، کپڑا اور مکان کی بنیادی ضروریات کے گرد گھوم رہاتھا ۔اس کاکاروبار کپڑے، غلے یا گھر سے متعلق ہوتاتھا۔
اس کے بعد دنیا ایک اور دور میں داخل ہوئی جس کوصنعتی دنیا کہا جاتا ہے ۔مثال کے طورپراگرپانچ بندے مل کرچائے کاایک کپ بنارہے ہیں تو ایسے میں انسا ن نے سوچا کہ ہمیں اپنی رفتار بڑھادینی چاہیے اور ایسی مشین بنادینی چاہیے جس کی بدولت وقت کم اور نتائج زیادہ حاصل ہوں ، تو ہم زیادہ ترقی کرسکتے ہیں ۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے بڑی بڑی مشینیں لگ گئیں اور پھر واقعی انقلاب آگیا کہ ایک ہی وقت میں سیکڑوں ، ہزاروں کپ بننا شروع ہوگئے۔مشین کے آنے سے افرادی قوت کی ضرورت بھی کم ہوگئی اور پیداواری شرح بہت زیادہ بڑھ گئی۔یہاں پر دنیا ایک نئے لفظ سے متعارف ہوئی، جس کو پروڈکٹیویٹی (پیداوار)کہا جانے لگا۔انسان اسی پروڈکٹیویٹی کی فکر میں زیادہ بھاگنے لگااور وہ ا س قدر بھاگا کہ اس بھاگ دوڑ نے ایک نئے کلچر کوجنم دیا جس کو کارپوریٹ کلچر کہا جاتا ہے۔
کارپوریٹ کلچر میں کام اور صرف کام کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔اس کلچر میں انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات بھی کام کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ یہاں کے جانچنے اور پرکھنے کا پیمانہ پیداوار ہے ۔یہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ انسان کس قدر پیداوار دے رہا ہے اور کمپنی کو کتنا فائدہ دے سکتا ہے۔اسی وجہ سے یہاں انسانوں کا تعلق سطحی ہوتا ہے ، اس میں اپنائیت نہیں ہوتی ،کیونکہ اس کلچر کی سوچ کے مطابق ، جب بھی اس ماحول میں اپنائیت اور گہرائی والا تعلق بنے گا تو اس کی وجہ سے پرڈکٹیویٹی متاثر ہوگی۔یہ کلچر کہتا ہے کام ہی زندگی ہے ۔اسی وجہ سے جیسے ہی کام اور مفاد ختم ہوتا ہے تو تعلق بھی ختم ہوجاتا ہے ۔ایک ایسا نظام جس میں پیسے کمانا، پیسے بنانا اور پیسے کو ضرب دینا ہی مقصد ہو تو وہاں انسان صرف ایک پرزے کے طورپر استعمال ہوتا ہے۔چنانچہ اس استعمال کی وجہ سے انسان میں کھوکھلا پن اور خالی پن بڑھنے لگا۔ــ‘‘

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *