اللہ عزوجل کا صفاتی نام ہے الصبور اس کا وظیفہ کرنا ہے ۔یا صبور کا مطلب ہے بڑے صبر اور تحمل والا جو شخص طلوع آفتا سے پہلے پہلے سو بار مطلب ایک تسبیح اس اسم مبارک کی کرتا ہے الصبور پڑھے یا پھر یاصبور پڑھے انشاء اللہ ہر مصیبت سے دور رہے گا اور دشمنوں اور حاسدوں کی زبانیں بھی اللہ عزوجل اس اسم مبارک کے پڑھنے کی برکت سے بند کر دے گا اور جوکوئی کسی بھی مصیبت میں گرفتار ہو کسی بھی پریشانی کا سامنا کررہو وہ ایک ہزار بیس مرتبہ اس اسم مبارک کو پڑھتا ہے
تو انشاء اللہ اس سے نجات پائے گا اور وہ مصیبت ختم ہوجائے گی اور انشاء اللہ اسے اطمینان قلب نصیب ہوگا۔صبور معنی و مفہوم کے اعتبار سے حلیم کے قریب ہے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ صبور اس بات پر دلیل ہے کہ اگرچہ فی الوقت بردباری کی لیکن آخرت میں پکڑے گا اور عذاب دے گا جب کہ حلیم بردباری کے مفہوم میں مطلق ہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ صبور کے معنی بندہ کو اس کی مصیبت و بلاء میں صبر دینے والا لہٰذا مبارک امانت کے تحمل پر صبر دینے والا، شہوات و خواہش کی مخالفت پر صبر دینے والا اور اداء عبادت میں مشقت پر صبر دینے والا وہی حق سبحانہ و تعالیٰ ہے اس لئے بندہ کو چاہئے کہ وہ ہر مصیبت و رنج و آفت و بلاء میں خدا سے صبر چاہے اور اس کی نافرمانی سے دور رہے۔
اس اسم پاک کا بندہ پر یہ تقاضہ ہے کہ وہ کسی کام میں سبکی اور جلدی نہ کرے بلکہ وقار وطمانیت اور تمکین اختیار کرے اور ہر رنج میں اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ طلب کرے۔ مشائخ میں سے ایک شخص کا یہ مقولہ کتنا ہی عارفانہ ہے۔ جام صبر پیو اگر مارے جاؤ گے شہید اور اگر زندہ رہو گے تو سعید کہلاؤ گے۔صبر و تحمل اور برداشت ایسی گراں قدر نعمت ہے کہ جو نہ صرف بے پناہ مسائل سے نجات دلانے کا باعث ہے بلکہ اس کی بدولت ہم ایک اچھی اور مستحسن زندگی بسر کرسکتے ہیں
سب سے بڑھ کر یہ کہ صابر و شاکر بندوں کو جنت کی بشارت بھی دی گئی ہے، مگر افسوس کہ ہم نے اپنی زندگیوں میں شاید صبر کا استعمال ترک کر دیا ہے ، اسی لئے ایک طرف تو ہم بہت زیادہ مسائل، مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہوچکے ہیں تو دوسری جانب ہم فرسٹریشن ، ڈیپریشن یا ٹینشن جیسی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں ، حالانکہ صبر کا اور اس کائناتی نظام کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے، کائنات کے ہر عمل میں صبر کی آمیزش ہے
مثال کے طور پر چاند ستارے اپنے اپنے مدار میں رہتے ہوئے اپنا سفر طے کرتے ہیں اور رات کو دن اور دن کو رات میں بدلتے ہیں، ایک پودا مکمل درخت راتوں رات نہیں بن جا تا، آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے ۔ پہلے پھول اور پھر پھل آتے ہیں ۔یہ کائناتی ربط ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں بھی اسے شامل کر کے زندگی میں ربط پیدا کریں ۔کسی بھی معاشرے میں کامیابی کے ذرائع ویسے توبے شمار ہیں لیکن موجودہ دور اور حالا ت کو دیکھتے ہوئے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے
وہ صبر ہے، جس کے لغوی معنیٰ ہیں روکنا ، برداشت کرنا ، ثابت قدم رہنا یا باندھ دینا، صبرکی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیاکہ اور (رنج و تکلیف میں) صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، اور بیشک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر (گراں) نہیں جو عجز کرنے والے ہیں سورۃ البقرہ، آیت45،بلاشبہ صبر اور نماز ہر اللہ والے کے لئے دو بڑے ہتھیار ہیں۔
نماز کے ذریعے سے ایک مومن کا رابطہ و تعلق اللہ تعالیٰ سے استوار ہوتا ہے۔ جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے۔ صبر کے ذریعے سے کردار کی پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے، مصیبت اور پریشانی کی حالت میں صبر اور نماز کو اپنا شعار بنانے کا حکم دیا گیا ہے کہ ا للہ تعالیٰ کی یاد میں جس قدر طبیعت مصروف ہو اسی قدر دوسری پریشانیاں خود بخود کم ہو جاتی ہیں۔
قرآن کریم میں صبر کے حوالہ سے متعدد مقامات پر ارشاد فرمایا گیا اور اللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے یہ ارشاد ربانی سورۃ البقرہ، آیت249، سورۃ الانفال ، آیت 66میں بھی موجود ہے جب کہ قرآن پاک میں ایک مقام پر اللہ پاک ارشاد فرما تا ہے کہ اور اللہ کی اور اس کے رسول ؐ کی فرماں برداری کرتے رہو،
آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر و سہار رکھو یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے سورۃ الانفال، آیت46، اسی طرح ایک جگہ حکم آتا ہے کہ (اے اہل ایمان) تمہارے مال و جان میں تمہاری آزمائش کی جائے گی۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین