جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی رزق کے سلسلے میں بہت زیادہ پریشان ہے اور اس کے لئے بہت زیادہ محنت کرتی ہے تو ہمارا دین بھی اس سلسلے میں ہمیں دعائیں سکھاتا ہے ۔ آپ کو چار دعائیں پڑھنی ہوں گی حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ کے نبی نوحؑ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے
فرمایا کہ سبحان اللہ وبحمدہ پڑھا کرو یہ ہر چیز کی نماز ہے اور اس کے ذریعے ہر چیز کو رزق ملتا ہے ۔اور دوسرے نمبر پر اللھم انی اسالک علما نافعا وعملا صالحا ورزقا طیبا وعملا متقبلا اے اللہ بے شک میں تجھ سے نفع بخش علم طبیب علم اور قبولیت والے عمل کا سوال کرتا ہوں تیسری دعا ہے اللھم اکفنی بحلالک عن حرامک واغننی بفضلک عن من سواک ۔اے اللہ اپنے حلال کے ذریعے حرام سے میری کفایت فرما اور اپنی مہربانی سے مجھے اپنے علاوہ ہر ایک سے بے نیاز فرمادے اور نمبر چار پر دعا ہے اللھم اغفر ذنبی ووسع لی فی داری وبارک لی فی رزقی اے اللہ میرے لئے میرے گناہ معاف فرمادے میرے لئے میرے گھر میں وسعت پیدافرمادے اور میرے لئے میرے رزق میں برکت عطافرمادے ۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔تفسیر اس آیت میں لفظ اُدْعُوْنِی کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد دُعا ہے۔ معنیٰ یہ ہوا کہ اے لوگو! مجھ سے دعا کرو، میں اسے قبول کروں گا، اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ”عبادت“ ہے۔ معنیٰ یہ ہوا کہ تم میری عبادت کرو، میں تمہیں ثواب دوں گا۔دُعا ایک عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیاتِ کریمہ اور
احادیثِ طیبہ وارِد ہیں۔ دعا کی نہایت عظمت میں ایک حکمت یہ ہے کہ دُعا اللہ تعالیٰ سے ہماری محبت کے اِظہار، اُس کی شانِ اُلوہیت کے حضور ہماری عبدیت کی علامت، اُس کے علم و قدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کا مظہر اور اُس کی ذاتِ پاک پر ہمارے ایمان کا اقرار و ثبوت ہے۔ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا خالق، مالک، رازق ہے۔ وہ رَبُّ الْعَالَمِیْن، اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن، اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْن اور مَالِکُ الْمُلْک ہے۔ تمام عزتیں، عظمتیں، قدرتیں، خزانے، ملکیتیں، بادشاہتیں اسی کے پاس ہیں۔ سب کا داتا اور داتاؤں کا داتا وہی ہے۔ ساری مخلوق اسی کی بارگاہ کی محتاج اور اسی کے دربار میں سوالی ہے جبکہ وہ عظمتوں والا خدا بے نیاز، غنی، بے پروا اور تمام حاجتوں سے پاک ہے۔ ہاں وہ جواد و کریم ہے، بخششیں فرماتا اور جود و کرم کے دریا بہاتا ہے۔ ایک ایک فردِ مخلوق کو اربوں خزانے عطا کردے تب بھی اس کے خزانوں میں سوئی کی نوک برابر کمی نہ ہوگی اور کسی کو کچھ عطا نہ کرے تو کوئی اس سے چھین نہیں سکتا۔ وہ کسی کو دینا چاہے توکوئی اُسے روک نہیں سکتا ہے اور وہ کسی سے روک لے، تو کوئی اُسے دے نہیں سکتا۔جب ہم دُعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہی عقیدہ و ایمان ہمارے دل و دماغ میں شعوری یا لاشعوری
طور پر موجود ہوتا ہے جو الفاظ و کیفیات کی صورت میں دُعا کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ اس حکمت کو سامنے رکھ کر غور کرلیں کہ جب دُعا اِس قدر عظیم عقیدے کا اِظہار ہے تو کیوں نہ اعلیٰ درجے کی عبادت بلکہ عبادت کا مغز قرار پائے۔ اِس تقریر کو سامنے رکھ کر دُعا کے فضائل پڑھئے اور رحمتِ خداوندی پر جھومئے چنانچہ دُعا کے فضائل کے متعلّق چند احادیثِ کریمہ ملاحظہ فرمائیں: اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیز دُعا سے بزرگ تَر نہیں۔ دُعا مصیبت و بلا کو اُترنے نہیں دیتی۔ دُعا مسلمانوں کا ہتھیار، دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے۔ دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ دعا عبادت کا مغز ہے۔اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔جو بلا اتر چکی اور جو نہیں اتری، دعا ان سے نفع دیتی ہے۔دعا رحمت کی چابی ہے۔دعا قضا کو ٹال دیتی ہے۔دعا بلا کو ٹال دیتی ہے۔ جسے دعا کرنے کی توفیق دی گئی اس کےلئے رحمت کے دروزے کھول دئیے گئے۔مفسرین نے دعا قبول ہونے کی چند شرائط و آداب ذِکر فرمائے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہدعا مانگنے میں اخلاص ہو۔ دعا مانگتے وقت دل دعا کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف مشغول نہ ہو۔ناجائز و گناہ کی دعا نہ مانگی جائے۔دعا مانگنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین رکھتا ہو۔اگر دعا کی قبولیت ظاہر نہ ہو تو
وہ شکایت نہ کرے کہ میں نے دعا مانگی لیکن وہ قبول نہ ہوئی۔جب ان شرطوں کو پورا کرتے ہوئے دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول ہوتی ہے لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ قبولیتِ دعا کا اصل معنیٰ ہے کہ بندے کی پکار پر اللہ تعالیٰ کا اُسےلَبَّیْکَ عَبْدِی فرمانا۔ کہ رحمٰن و رحیم خدا ہمارے ساتھ وہی معاملہ فرمائے جو ہمارے حق میں بہتر ہے۔ قضائے الٰہی پر راضی رہنا بہت اعلیٰ مرتبہ ہے اور حقیقت میں ہمارے لئے یہی مفید تر ہے کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے جبکہ خدا کا علم لامتناہی و محیط ہے۔ بارہا ہم اپنی کم علمی سے کوئی چیز مانگتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے ہمیں منہ مانگی چیز نہیں دیتا کیونکہ وہ چیز ہمارے حق میں نقصان دہ ہوتی ہے، مثلاً:بندہ مال و دولت کی دعا کرتا ہے لیکن وہ اس کے ایمان کیلئے خطرناک ہوتی ہے یا آدمی تندرستی و عافیت کا سوال کرتا ہے لیکن علمِ الٰہی میں دنیا کی تندرستی آخرت کے نقصان کا باعث ہوتی ہے۔ تو یقیناً ایسی دعا قبول نہ کرنا بندے کیلئے زیادہ اچھا ہے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دعائیں بہت جامع ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنے لئے منتخب کرلیں تو بہت عمدہ ہے۔ ایک جامع دعا یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اے اللہ ! مجھے ایمان و تقویٰ، صحت و عافیت، خوشیوں اور خوشحالیوں والی لمبی زندگی عطا فرما۔ جان، مال، عزت اور اہلِ خانہ کے حوالے سے برے وقت اور آزمائش سے محفوظ فرما۔