ہر انسان کو اپنی زندگی میں مصائب و مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے چاہے وہ غریب ہو یا امیر، بوڑھا ہو یا جوان، نیک ہو یا بد، مرد ہو یا عورت، سب کو کبھی نہ کبھی مصائب و مشکلات وغیرہ سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ سب سے زیادہ مصائب وشدائد انبیآءکرام علیھم السلام پر وارد ہوتے ہیں پھر جو شخص جس حد تک اُن مقدس ہستیوں انبیآء کرام ( علیھم السلام )کی رفاقت و محبت کا دم بھرتا ہے۔
اسی نسبت سے اسے بھی ان مصائب وشدائد کا حصہ دار بننا پڑتا ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا میں آپ سے محبت کرتا ہوں
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا “ذرا سوچ لو جو کہہ رہے ہو” اس کے بعد اس آدمی نے تین بار یہی بات دہرائی کہ “میں آپ سے محبت کرتا ہوں ” آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر تم اپنے اس محبت کے دعوے میں سچے ہو
تو پھر فقر اور اس کے ساتھ آنے والی مصیبتوں کیلئے ایک لوہے کا جھول تیار کر لو۔کیونکہ مجھ سے محبت کرنے والے کی طرف فقر اس سے بھی زیادہ تیزی سے آتا ہے جیسے رُکا ہوا پانی نشیب کی طرف جاتا ہے “ایک اور روایت میں ہے کہ” تم میں سے جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس کی طرف فقر اس سے بھی زیادہ تیزی سے آتا ہے جیسے وادی کی بلندی سے پانی نشیب کی طرف آتا ہے ۔۔۔ بعض لوگ دنیا میں حد سے زیادہ دکھ ، تکلیف اور بیماری کا شکار بنتے ہیں۔ ان لوگوں کو اجر وثواب اسی مقدار میں ملے گا جس مقدار میں انہوں نے مصیبت اٹھائی ۔ سب سے زیادہ تکالیف اللہ کے پیغمبروں(علیھم السلام) اور برگزیدہ ہستیوں نے برداشت کیں اور ان پر شکر اورصبرکیا۔۔۔جس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کو ان کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی اندوہناک خبرسنائی گئی توانہوں نے صبرکیا۔۔۔
امُ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کوایک سازش کے تحت بدنام کرنے کی کوشش کی گئی توآپؓ نے صبر کیا جس کو صبرجمیل کہا جاتاہے۔۔۔ اسی طرح حضرت حارثؓ کو تپتے انگاروں پرلٹایا گیا ،حضرت بلال حبشی ؓ کے گلے میں رسی ڈال کرگھسیٹاگیا۔۔۔حضرت صہیب رومیؓ کو ہجرت کے موقع پرمال ودولت سے ہاتھ دھونا پڑا، حضرت ابو سلمہ ؓ سے ان کے بیوی بچے چھین لیے گئے ،سیدہ ام سلمہؓ سے بچے اور شوہرچھین لیاگیا ۔حضرت خبیب ؓ کوایمان لانے کی وجہ سے سولی پرلٹکا دیاگیا۔ گویا حق وباطل کے معرکہ میں سب سے زیادہ صبر وثبات سینہ سِپر ہونے والی جماعت حضرات انبیآء کرام علیھم السلام کی جماعت ہوتی ہے ان کے بعد اس مقدس جماعت کو مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو انبیآءکرام کا ساتھ دیتی ہے۔
بدر واحد، ہجرت حبشہ و ہجرت مدینہ میں جانثارانِ مصطفے ﷺ کی ایمانی حمیت وغیرت،جرات و شجاعت، صبر واستقلال اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ نصرت خداوندی کا وعدہ ہر اس جماعت کیساتھ ہے جو اپنی ایمانی حمیت وغیرت کیساتھ استقامت واستقلال میں لغزش نہ آنے دے۔۔۔سورت بقرہ میں ارشاد خداوندی ہے کہ کیا تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ تمہیں وہ (حالات) پیش نہیں آئے جو ان لوگوں کو پیش آئے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں، انہیں سختی اور تکلیف پہنچی اور ہلا دیے گئے یہاں تک کہ رسول (علیہ السلام )اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب ہوگی! سنو بے شک اللہ کی مدد قریب ہ