اس روز صبح کے ساڑھے سات بجے تھے جب میں طوبی کے گھر گئی۔ سامنے ہی ایک نوجوان کرسی پربیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ اسے پہلی بار طوبی کے گھر دیکھا تھا۔ آنٹی کچن سے نکلیں۔ ان کے ہاتھ میں ٹرے تھی ۔ وہ اس مہمان کے لیے ناشتہ لارہی تھیں ۔ مجھ پر نظر پڑی تو کہا۔ شانو بیٹی اندر چلی جاؤ۔ طوبی تیار ہورہی ہے ۔ میں کمرے میں گئی تم ابھی تک تیا ر نہیں ہوئی جلدی کرو۔ کالج سے دیر ہو رہی ہو۔ اس نے جلدی سے کنگھا بالوں میں پھیرا اور بال باندھ لیے۔ ہم روز ساتھ کالج جاتی تھیں۔
مگر آج تمام رستے خاموش رہی۔ ایک دوبار میں نے بات کرنے کی کوشش کی ۔ اس نے ہاں میں جواب دیاجیسے کسی گہر ی سوچ میں گم ہو۔ واپسی میں اس نے خود ہی بتیا کہ کل شام گاؤں سے ان کا کزن آیا ہے وہ مجھے دیکھنے آیا ہے کیامطلب؟ ابو کا خیال ہماری شادی کرنے کا ہے ۔ یہ تو خوشی کی بات ہے۔ کیسا ہے وہ؟ اس نے ذرا شرما کر پوچھا ۔ مجھے تو اچھا لگا۔ تمہاری خوش قسمتی ہے جو تم کو اپنے گھر کا لڑکا مل رہا ہے۔ وہ بھی اتنا خوش شکل اور خوش لباس۔
اب امی میری مرضی پوچھیں گی ۔ تم ضرو ر ہاں کردینا۔ سوچتی ہو ں اگر مجھے گاؤں راس نہ آیا، سار ی زندگی شہر میں رہی ہوں ۔ اب گاؤں میں کیوں کر رہ پاؤ ں گی؟ دونوں میں محبت ہوگی تو کیا شہر کیا گاؤں تم جہاں رہو گی ہرجگہ تم کو اچھی لگے گی۔ دو دن گز رے تو میں نے محسو س کیا کہ طوبی کچھ ڈسٹرب ہے ۔ کیا بات ہے طوبی ! مجھ سے کچھ مت چھپانا ۔ کیا پریشانی ہے ؟ جب میں پیدا ہوئی تایا تائی نے اپنے بیٹے کے لیے مانگ لیا تھا۔ یہ بزرگوں کےفیصلے تھے، مجھے ان کاعلم نہیں تھا۔ مگر ہمارے والدین کے دلوں میں برسوں سے یہ بات تھی ،جو مجھ پر اب ظاہر ہوئی ہے ۔
کیا وہ تم کو پسند نہیں ہے ؟ یہ بات نہیں ، وہ مجھے پسند ہے لیکن کچھ زیادہ اس کی عادت و طبیعت کے بارے میں نہیں جانتی۔ اچھا بتاؤ تمہار ا کزن کتنے دن تمہارے گھر ٹھہر ے گا۔ ایک ماہ تو قیام کرے گا۔ غالباً وہ بھی تمہاری عادات و اطوار دیکھنا چاہتا ہے ۔ اچھا ہے کچھ تو اتنے دنوں میں اس کو جانا ہی ہوگی۔ یہ بات نہیں ہے شاہین ! اصل بات یہ ہے کہ میں محبت اورعملی زندگی کے سکھ اور خوشیوں کو الگ الگ سمجھتی ہوں۔ اگر محبت ہو اور دولت نہ ہو تو محبت اور خوشیوں کے گلاب خود بخود سو کھ کر کانٹا ہو جاتے ہیں اور پھر ساری زندگی چبھتے رہتے ہیں
لیکن تمہار ا کزن تو غریب نہیں ہے؟ غریب تو نہیں مگر ہمارے جیسے ہی متو سط طبقے کے لو گ ہیں ۔ گاؤں میں جو تھوڑی سی زرعی زمین اور مکان ہے وہ بھی تایا اور ابو کی مشترکہ ملکیت ہے۔ ان کے پاس بینک بیلنس کوٹھی بنگلہ نوکر چا کر کچھ بھی نہیں ہے عامر گریجویٹ ضرور ہے مگر کسی اعلی ٰ عہدے پرنہیں ہے میں اپنی بچپن کی دوست کے منہ سے یہ باتیں سن کر حیران رہ گئی۔ سچ بتاؤ طوبی یہ باتیں تم کو کس نے سمجھائی ہیں۔
پہلے دن عامر کے آنے سے تم خوش تھیں لیکن اس کے بعد تم کشمکش کا شکا رہو۔ اگر کسی دولت مند سے شادی کر و گی تو سکھی رہو گی۔ مجھ کو نجانے کیوں طوبی کی یہ باتیں اچھی نہ لگیں۔ میرا ووٹ عامر کے حق میں تھا۔ بہر حال ایک ماہ بعد وہ اپنے گاؤں چلاگیا۔ اس دن میری سہیلی ادا س تھی۔ جس سے اندازہ ہوا کہ طوبی کو عامر پسند ہے ۔ مگر اس کی سوچوں کو چھوٹی چچی نے بھٹکا دیا ہ ، جو قریب گھر ہونے کی وجہ سے اکثر ان کے یہاں آتی رہتی تھیں۔ گاؤں جا کر عامر نے ماں سے کہا کہ مجھے طوبی اچھی لگی ہے۔ اب آپ بے شک میری شادی کی تاریخ طے کرآئیں، مجھ کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ طوبی کی تائی شہر آگئیں اور آنٹی شادی کی تاریخ طے کرنا چاہی ۔
لیکن ہمیشہ سو اگت کرنے والی دیورانی اس بار چپ چپ لگی۔ جب مزید سوچنے کا وقت مانگ لیا۔ عامر کی والدہ حیرت زدہ ہوگئیں۔ کہ کل یہی اصرار کررہی تھیں کہ بیٹی کی جلد شادی کرنے میں بھلائی ہے اورآج ٹا ل رہی ہیں۔ گاؤں جاکر بیٹے کو بتایا۔ خداجانے کیا معاملہ ہے کہ تمہاری چچی گو مگو ہیں۔ کچھ روز بعد وہ دوبارہ آئیں طوبی کی ماں بولی تمہارے دیور اور میں تو دل س ےراضی ہیں مگر لڑکی کی رضامندی بھی ضروری ہے ۔ کیوں کیا طوبی منع کررہی ہے ؟
تم خود اس سے پوچھ لو۔ مجھے تو صیحح جواب نہیں دے رہی۔ تائی نے طوبی سے عندیہ پوچھا۔ وہ بولی :تائی میں ایم ۔ اے کرنے تک شادی کرنا نہیں چاہتی۔ تم کو جتنا آگے پڑھنا ہوبیٹی ، ہم نہیں روکیں گے ۔ لیکن میں تمہاری رضامندی چاہتی ہوں۔ اچھاکل بتاؤں گی۔ اس نے ٹال دیا۔ کالج میں مجھ سے تمام احوال بتا کر طوبی نے سوال کیا۔ شانو سمجھ میں نہیں آرہا ابھی تک، کیا فیصلہ کروں؟ کیاجواب دوں ان کو سوچو مت اور فوراً ہاں کہہ دو۔ میں نے اس کو مشورہ دیا۔
اگلے دن وہ ملی تو میں نے پوچھا ۔ کہو تم نے کیا جواب دیا میں ہاں کرنا چاہتی تھی ۔ مگر چھوٹی چچی مجھے اپنے ساتھ گھر لے گئیں۔ اور کافی دماغ کھایاکہ ہرگز ہاں مت کرنا۔ سوچنے کے لیے وقت لو۔ ایک اور بہت اچھا رشتہ ہے میرے پاس وہ دولت مند لوگ ہیں۔ اور لڑکا بھی خوبصورت ہے۔ اسے بھی دیکھ لو پھر جو چاہو فیصلہ کرلینا۔ غرض طوبی کی تائی واپس چلی گئیں کیونکہ اس کو اس کی چچی نے ہاں نہیں کہنے دی۔ اس نے طو بی کی ماں سے بھی کہا کہ بچیاں ناسمجھ ہوتی ہیں۔ آپ معاملہ لڑکی پر مت چھوڑئیے۔ یہی بات طوبی کے والد نے بیوی سے کہی مگر آنٹی نے نجانے کیا سوچ کر بیٹی کی مرضی کو اہمیت دی اور عامر کی والدہ کو یہی جواب دیا کہ لڑکی آپ ہی کی ہے۔
مگر دباؤ مت ڈالیے۔ تھوڑی سی مہلت دیں اس میں حرج کیا ہے آپ گاؤں میں رہتے ہیں اور یہ بچپن میں کبھی وہاں گئی تھی ۔ تبھی ہچکچارہی ہے۔ ماحول مختلف ہے تبھی گھبراہٹ کا شکا ر ہے ۔ تائی کے جاتے ہی چھوٹی چچی رشتہ لے کر آگئیں ۔ امی کو بتایا کہ شہر لوگ ہیں ، دولت کی ریل پیل ہے، لڑکا اپنے بڑے بھائی کے ہمراہ دبئی میں کاروبار کرتا ہے ۔ ان کی بڑی کمائی ہے ۔ بس ایک بار ان کا گھر چل کر دیکھا الو پھرفیصلہ کرنا۔ تمہاری بیٹی کے نصیب کھل جائیں گے ۔ میرے برسوں کے جاننے والے ہیں۔ کب سے لڑکی کی ماں پیچھے پڑی ہے کہ طوبی سے رشتہ کرا دو۔
اب جب لڑکی گاؤں جانے سے گریزاں ہے ، یہ رشتہ عامر سے کہیں بہتر ہے ۔ بیٹی کے مستقبل کو دیکھو۔ یوں چھوٹی چچی کے بہت اصرار پر آنٹی لڑکے والوں کے گھر گئیں ۔ مکان تو واقعی شاندار تھا، فرنیچر بھی جدید اوعمدہ گاڑیاں بھی تھیں۔ لڑکے کی ماں اور بہن گرمجوشی سے ملیں۔ وہ بقول اس کی ماں کے دبئی میں تھا۔ البتہ تصویر دکھائی شکل واجبی تھی۔ تبھی طوبی کی چچی نے کہا۔ مردوں کی شکل کون دیکھتا ہے۔ کمائی اور اخلاق دیکھناچاہیے اور بس۔ بیوی نے شوہر کو راضٰ کیا اور بہت اصرار کر کے ا ن کو بھی لڑکے کے گھر لے گئیں ۔
طوبی کے والد کی آنکھیں ان کی شان وشوکت کو دیکھ کر کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ گیراج میں قیمتی اور نئی گاڑیاں موجو د تھیں۔ مگر اب بڑے بھائی کو کیا جواب دیں گے ۔ بیوی نے لگا م بیٹی کے ہاتھ میں تھما دی۔ شوہر سے کہا اپنی کہئے اور نہ میری سنیئے ۔ آپ بس بیٹی کی رضا کے مطابق فیصلہ کردیجیے۔ کچی عمر کی طوبی کو تو اس کی چچی پہلے ہی شیشے میں اتار چکی تھیں۔ یہ وہی طوبی تھی جس نے کہا تھا کہ عامر مجھے دل سے پسند ہے چلو گاؤں میں جیسی بھی زندگی ہے ، شادی کے بعد اسے بھی شہر لے آؤں گی۔ اب وہی تھی کہ دولت کے خواب اور نئی گاڑی کی چمک دمک نے اس کا ذہن پلٹ دیا اور اس نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا ارمان پور ا کرنے کی ٹھان لی۔
چچی لڑکی کی رضامندی سے مسرور، آنٹی اور انکل کو مبارک باد دینے لگیں۔ کہا کہ ٹھیک فیصلہ کیا ہے ۔ آپ کی بیٹی عقلمند ہے ۔ جو منع کردیا۔ اس خاتون نے تو دراصل اپنی جیٹھانی سے کبھی کی پرخاش نکالی تھی اور اپنی کسی محرومی کا بد لہ لیا تھا۔ جب عامر کو پتا چلا کہ طوبی کسی اور کی ہونے جارہی ہے، وہ بہت افسردہ ہوا۔بیٹے کو افسردہ دیکھ کر بڑے تایا نے طوبی کے والد کو خط لکھا کہ یہ تم کیا غلطی کررہے ہو؟ ابھی تیر کما ن سے نہیں نکلا ہے۔
کیونکہ انجانوں میں پھنس رہے ہو اور اپنوں کو ٹھکرا رہے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتانا پڑجائے۔ خط آنٹی کے ہاتھ لگا۔ شوہر کو نہ بتایا کہ آپ کے بھائی کا خط آیا ہے۔ انہوں نے بیٹی کی شادی کی تاریخ رکھ دی اور رخصتی کی تیاری شروع کردی گئیں۔ دولہا اور اس کے بھائی کو شادی سے چند روز قبل دبئی سے آنا تھا۔ پڑوس والوں نے کہہ دیا کہ ہاں ٹھیک لوگ ہیں۔ کسی کے لینے دینے میں نہیں، بس اپنے بزنس میں مگن ہیں۔ نہ کوئی تکلیف اور نہ شکایت۔ ان کی باتوں سے بھی طوبی کے والد مطمئن ہوگئے کہ پڑوسیوں کی رائے اہمیت رکھتی ہے۔ طوبی شادی کے دن خوش تھی ۔
سسرال سے بھاری زیورات اور قیمتی کپڑے آئے تھے لیکن۔شادی کی رات جونہی دولہا نے گھونگھٹ اٹھایا، اسے اپنا بدوضع سا اور واجبی شکل کا دولہا اچھا نہ لگا۔ دل کے کسی گوشے میں تو عامر کی حسین صورت نقش تھی، جس کو محض دولت کی وجہ سے اس نے ٹھکر ا دیا تھا۔ کبھی کبھی بعض لڑکیاں ایسا فیصلہ عجلت میں کرلیتی ہیں کہ پسند کوئی ہوتا ہے مگر دوسروں کے بہکائے میں آکر شادی کسی دولت مند سے کرلیتی ہیں۔ شادی کے فوراً بعد اس کا دولہا واپس دبئی چلا گیا۔ اور وہ سسرال میں اکیلے دن بتانے پر مجبور ہوگئی۔ اس کے بعد اصل حالات کھلے کہ یہ لوگ ظاہری ٹپ ٹاپ پرخرچ کرنے والے اور اصل میں بہت کنجوس تھے ۔ اچھاکھاتے تھے اور نہ ہی خوشیوں پر کچھ خرچ کرنے کے قائل تھے ۔
دولت کو جمع کرنا ہی ان کا نصب العین تھا۔ ساس نے چند دن بعد طوبی سے تمام زیور لے کر “لاکر” میں رکھ دئیے ۔ بیٹی گھر میں چوری چکا ری کا خطرہ رہتاہے ۔ جب کہیں جانا ہوگا ، تقریبات کے وقت نکال لیا کریں گے اور بعد میں رکھ دیں گے ۔جو کھانا یہاں بنایا جاتا، اس سے اچھی خوراک تو طوبی کو اپنے گھر میں میسر تھی۔ یہاں تک گو شت پلاؤ وغیرہ تو کبھی کبھار کسی خاص موقع پر پکایا جاتا تھا۔ ورنہ آلو، دال یا پھر چٹنی اچار سے کام چلتا۔ طوبی اس قدر کفایت شعاری کی عادت نہ تھی ۔ جبکہ اللہ نے اتنا بہت دیا تھا تو ایک ملازمہ رکھنے میں کیا ہرج تھا۔
مگر ساس نے باریاں لگا دیں کہ ایک روز اس کی لڑکیاں کام کریں گی اور ایک دن دولہن کرے گی۔ ہاں ! ڈرائیور مالی سودا سلف لانے والا ملازم جو گھر کے کچھ اور کام بھی کر دیتا تھا۔ ان کو رکھا ہوا تھا۔ چوکیدار بھی موجود تھا لیکن طوبی کو ملازمہ کی سہولت نہ دی گئی۔ طوبی کہتی ، جو لوگ خود اچھانہ کھاتے ہوں وہ بہو کو کیا کھلائیں گے ۔ وہ سوکھ کر کانٹا ہوگئی، رنگت کالی پڑنے لگی۔ وہ اس کو جیب خرچ کے لیے پھوٹی کوڑی نہ دیتے تھے۔ نہ ہی کپڑے اس کی پسند کے بنتے تھے۔ اور نہ کھانا ڈھنگ کا پکتا تھا۔ اب طوبی کو پتا چلا کہ محبت کیا چیز ہوتی ہے ؟ تایا تائی کی محبت ٹھکرا کرخود کو وہ آب خالی دامن محسوس کرتی تھی۔ اب اپنے خاندان کے افراد آتے جو روز فروٹ اور دوسری پسند کی اشیاء تھیلے بھر بھر کر لاتے تھے۔ طوبی جب آتی مجھ سے گلے لگ کر رونے لگتی ۔ شوہر کا تو پتہ نہیں لیکن روپیہ بے شمار آتا ہے ۔ جس سے اس کے گھر والے پلاٹ خریدتے جاتے ہیں۔ ان کو پلاٹ خریدنے کی ہوس ہے
کہ روپیہ اکٹھا کرنے کی چاہ میں چٹنی سے روکھی سوکھی کھا کر سوجاتے ہیں۔ مگر زمین خریدنے کی چاہت کم نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی کہیں تفریح پر آجا سکتے ہیں۔ پائی پائی بچا کر روپے جوڑتے رہتے ہیں۔ میں تو فروٹ کی شکل کو ترس گئی ہوں۔ یہ لوگ اتنے کنجوس اور زر پرست ہیں مجھ ہی کو نہیں ، خود کو بھی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لی ترساتے رہتے ہیں۔ جب کبھی اس کا شوہر دبئی سے آتا، اس کے لیے تحفہ نہ لاتا۔ دوچار دن ساتھ گزار کر واپس چلاجاتا۔ اس نے ایک بار بی اسے کہیں سیر نہ کرائی۔ اب طوبی دعا کرتی ۔ اے کاش! یہ دولت نہ رہے اور محبت مل جائے، مگر محبت نصیب سے ملتی ہے مانگے سے نہیں۔ اپنے نصیب کو اس نے خود ٹھکرایا تھا۔ اس کی شادی کے پانچ برس بعد طوبی کے والد کی وفات ہوگئی۔ ان کی میت کو دفنانے آبائی گاؤں لے گئے۔
وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ جس عامر کوا س نے غریب جا ن کر ٹھکرایاتھا، اس کے لہلہاتے کھیت، سونااگلتے تھے۔ اور مکان علاقے کا سب سے اونچا مکان تھا۔ وہاں کسی شے کی کمی نہ تھی بلکہ اتنی رزق کی فروانی تھی کہ وہ لو گ خود ہی نہیں اور بہت سے ضرورت مندوں کو پیٹ بھر کر کھلاتے تھے۔ وہاں کنجوسی کو کفر اور سخاوت کو عجز مانا جاتا تھا۔ اورضرور ت مندوں کے در پر آنے کو اللہ کی رحمت سمجھا جاتا تھا۔ جب وہ گاؤں سے لوٹی اس نے کہا۔
شانو تم ٹھیک کہتی تھیں ۔ میرے لیے تایا ابو کے گھر سے بہتر کوئی نہ تھا۔ لیکن میں نے اس وقت چھوٹی چچی کی باتوں میں آکر بھر ے تھال کی ٹھوکر مارردی۔ مجھے سمجھ ہی نہ تھی کہ جس پرتعیش زندگی کے دیکھ کر میں نے امیر گھر کا رشتہ قبول کیا، وہ مجھے نہ ملی۔ آج میں ایک امیر شخص کی بیو ی ہو کر بھی کتنی غریب ہوں کہ میرا دامن دولت سے ہی نہیں محبت سے بھی خالی ہے اور عامر کی بیوی ایسی زندگی بسر کررہی ہے کہ جس کا میں نے کبھی خواب دیکھاتھا۔ اے کاش! وقت ایک بار پلٹ سکتا اور میں پھر سے اپنے ماضی میں لوٹ سکتی۔