Home / آرٹیکلز / “دوغلے لوگ”

“دوغلے لوگ”

پہلا منظر: دسمبر کی سرد شام ہے ، رانجھے کھیری کی بیٹھک میں بیس پچیس کے قریب لوگ بیٹھے ہیں ، کچھ جوان اور کچھ بوڑھے ہیں ۔ یہاں پر شام کے بعد یہی لوگ اکھٹے ہوتے ہیں کبھی کبھار کوئی مہمان جو کسی کے ہاں آیا ہوتا ہے تو وہ بھی میزبان کے ساتھ بیٹھک میں آ جاتا ہے ۔ اس بیٹھک میں ہر ایک بڑھ چڑھ کر گفتگو میں حصہ لیتا ہے کوئی بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتا ۔ رانجھا کھیری تو سب سے زیادہ بولتا ہے ، اس کی باتوں کو اہمیت دی جاتی ہے ، غور سے سنا جاتا ہے ، اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو بیٹھک رانجھے کھیری کی ہے ، عرف عام میں جسے وڈیرا بھی کہتے ہیں جس کی بیٹھک میں روزانہ کی بنیاد پر لوگ اکھٹے ہوتے ہیں ۔ دوسری بات یہ اپنے آپ کو ایک معزز اور شریف النفس انسان کہتا ہے ، اسے سوائے اپنے آپ کے سارے معاشرے میں برائی دکھتی ہے ۔

معمول کی طرح آج بھی رانجھا کھیری غصے میں تھا ۔ آستینیں چڑھا کر وہ بڑے جذباتی انداز میں معاشرے میں پھیلی برائیوں کا رونا روتا ہے ، وہ بات سے بات کرتا ہے ، دوسرے لوگ بڑے انہماک سے اس کی باتیں سنتے جاتے ہیں ۔ رانجھا کھیری کہتا ہے کہ معاشرے میں کرپشن ، لوٹ مار ، دھوکہ ، ملاوٹ عام ہے ، دوسری طرف ہماری حکومت بھی کرپٹ ، افسر بھی کرپٹ ، پولیس بھی کرپٹ اور سب سے معزز شعبہ ڈاکٹر جن کو مسیحا کہا جاتا ہے ، وہ بھی جیب کو گرم کرنے کے لیے مریض کو ایسی ادویات لکھ کر دیتے ہیں جن کا مریض کی بیماری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ دوسرا ان کی فیسیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں ۔ دوستو مجھے بتاؤ ہماری کون سی چیز ٹھیک ہے ، ہم غلط ہیں غلط ۔ ملاوٹ عام ہے مرچوں میں اینٹیں پیس کر ملائی جا رہی ہیں ۔ ہوٹلوں میں گدھوں ، کتوں کا گوشت کھلایا جا رہا ہے ۔ اب مجھے بتاؤ ہم کہاں جائیں ! یہ کہتے ہوئے رانجھے کھیری نے بڑے دکھ کا اظہار کیا ، سننے والے تمام لوگوں نے اس کی باتوں کو سراہا اور رسمی طور پر ایسے گندے کام کرنے والوں پر لعن طعن کے چند جملے کہہ کر گویا خود کو پاک ثابت کر دیا۔

دوسرا منظر: رانجھا کھیری دکان میں صبح سویرے اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے ۔ لیکن یہاں رانجھے کھیری کا دوسرا روپ ہے ، بیٹھک والا رانجھا اور باتیں وہ وہاں بیٹھک میں ہی چھوڑ آتا ہے ، یہی رانجھے کی خصوصیت ہے کہ اس کے دو چہرے ہیں یعنی وہ Doublefaced آدمی ہے ۔ بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے وہ کہتا ہے!

کل بھی تو نے دودھ میں کم پانی ملایا تھا کئی گاہک خالی ہاتھ واپس لوٹ گئے ، کچھ تو شرم کر اب اتنا بڑا ہے مجھے ڈانٹتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کئی دفعہ میں بکواس کر چکا ہوں دودھ میں زیادہ پانی ملایا کر ۔پتہ نہیں تجھے کیوں سمجھ نہیں آتی! بیٹے نے جواب دیا ، ابا جی بات تو آپ کی ٹھیک ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں لوگوں کو پتہ نہ چل جائے ، اگر انہیں معلوم ہو گیا کہ ہم دودھ میں پانی ملاتے ہیں تو کوئی ہم سے دودھ نہیں خریدے گا ، کھیری بیٹے کی بات ٹالتے ہوئے جواب دیتا ہے،

لوگ جائیں بھاڑ میں کسی کو کیا پتہ کہ ہم نے دودھ میں پانی ملایا ہے؟ ویسے بھی ہم کیوں خالص دودھ بیچیں ، خالص دودھ ملتا ہی کہاں ہے لوگ اب ملاوٹ والے دودھ کے عادی ہو چکے ہیں ۔ اور ہاں سن! تو زیادہ سبق مجھے نہ پڑھایا کر ، باپ ہوں تیرا تجھ سے بہتر جانتا ہوں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں یہ بال میں نے یوں ہی دھوپ پر سفید نہیں کیے عمر گزر گئی ہے دودھ میں پانی ملاتے ملاتے کبھی کسی نے گلہ نہیں دیا آج تو کہہ رہا ہے لوگوں کو پتہ چل جائے گا ۔ بیٹا دنیا میں اگر رہنا ہے تو دھوکہ تو تجھے کرنا ہی ہو گا ۔ دھوکے کا زمانہ ہے ہر کوئی دھوکہ کرتا ہے اگر ہم بھی ملاوٹ اور دھوکہ کریں تو کیا ہو جائے گا ۔

پہلا منظر: امجد ایک رائیٹر ہے ، یہ پچھلے چند سالوں سے فیس بک پر لکھ رہا ہے لکھنے کا انداز ایسا نرالا ہے کہ قارئین کا ایک بڑے حلقہ تیار کر لیا ہے اس کی ہر تحریر پر ہزاروں لائک ، کمنٹ اور شئیر ہوتے ہیں ۔ آج بھی امجد ایک نرالی تحریر لکھنے جا رہا تھا تحریر کا موضوع تھا “صنف نازک اور ہماری ذمہ داری” تحریر فیس بک پر اپلوڈ کرنے کے بعد وہ لوگوں سے داد وصول کرنے والا تھا ۔ اس نے لیپ ٹاپ آن کیا ، فیس بک کھولی اور لکھنا شروع کیا ، وہ آج بہت جذباتی تھا اسے ہر طرف عورت کی عزت پامال ہوتی دکھائی دے رہی تھی ، اس نے لکھنا شروع کر دیا ۔ معزز قارئین آج میں آپ کو اپنے دل کا حال بتانا چاہتا ہوں میرا دل خون کے آنسو روتا ہے ، جب دیکھتا ہوں معاشرے میں انسان نما درندے دندناتے پھر رہے ہیں جن کا مقصد معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زیاتی کرنا ہے نوجوان بچیوں کی عزت کو تار تار کرنا ہے۔ کیا ان کی اپنی ماں ، بہن ، بیٹی نہیں ہے ؟ جو دوسروں کی ماں ، بہن ، بیٹی کا پاس نہیں کرتے ایسے لوگوں کو شرم آنی چاہیے ۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ ایسے درندوں کو کڑی سے کڑی سزائیں دے ۔ دوسری بات یہ کہ ہمیں دوسروں کی ماں ، بہن ، بیٹی کو دیکھنا تک نہیں چاہیے۔

دوسرا منظر: امجد ابھی تحریر مکمل بھی نہیں کر پایا تھا کہ اچانک اس کے موبائل کی گھنٹی بج اٹھی ، اس نے کال ریسیو کی دوسری طرف اس کا دوست اصغر تھا ۔ ہاں ہیلو امجد یار کہاں مر گئے ہو کب سے تمھارا انتظار کر رہا ہوں ۔ جواب میں امجد کہتا ہے یار تحریر لکھ رہا ہوں ، پانچ منٹ صبر کرو میں تحریر مکمل کر کے آیا ۔ اچھا اچھا ٹھیک ہے جلدی آنا اس کی چھٹی کا ٹائم ہونے والا ہے ، آج تو اس چھوکری کو نمبر دے کے ہی رہیں گے بڑی کام کی چھوکری ہے ۔ ہاں یار بالکل ساتھ ہی دونوں ہنسنے لگے ، امجد “صنف نازک اور ہماری ذمہ داری” تحریر مکمل کر کے فیس بک پر اپلوڈ کر دیتا ہے اور پھر اپنے دوست اصغر کے ساتھ صنف نازک کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے کالج کے گیٹ کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کی چھٹی کا انتظار کرنے لگتا ہے ۔

About admin

Check Also

علم اور جہالت میں کیا فرق

ایک بوڑھی عورت مسجد کے سامنے بھیک مانگتی تھی۔ ایک شخص نے اس سے پوچھا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *