Home / آرٹیکلز / انصاف و اعتدال۔۔۔!!!

انصاف و اعتدال۔۔۔!!!

خاندان کی تمام لڑکیوں سے زیادہ ہوشیار اور چالاک تھی میں۔ دیکھنے میں بہت پتلی تھی لیکن کام میں پھرتیلی تھی۔سب رسومات ،کھانے پکانے ،گھرداری میں نمبرون تھی میں۔ میرے پاس ہر بات کا جواب موجود تھا ،کس کو کسطرح ہینڈل کرنا ہے میں بخوبی جانتی تھی۔میری حاضر جوابی کے سب بہت قائل تھے۔

امی ابو میری سلیقہ شعاری کے طعنے بجیا کو بھی دیا کرتے تھے کہ تم ڈنگر ہی رہنا اور تمہاری چھوٹی بہن دیکھو کتنی سمجھدار ہے۔بجیا بس خاموشی سے ایک طرف کو سر جھکا کہ بیٹھ جاتی تھی۔

میری عمر اٹھارہ سال بھی پوری نہ تھی جب زید کا رشتہ آگیا اور امی مجھ سے پوچھنے لگی ۔

اور میں نے بخوشی ہاں کردی۔میرے ساتھ بجیا کی بھی شادی ایک نارمل گھرانے میں طے ہوگئی اور یوں بجیا 21 سال کی تھی اور میں اٹھارہ سال کی جب ہم اپنے پیا دیس سدھار گئی۔

میرا رشتہ اس شرط پہ بے ہوا تھا کہ میں اپنی ساس اور خاوند کا کام کیا کرونگی کیونکہ جوائنٹ فیملی سسٹم تھا لیکن دیورانی اور جیٹھانی الگ الگ اوپر والے پورشن میں تھیں اور میرے خاوند امی کیساتھ رہتے تھے لہذا ساس میرے حصے میں آگئی ۔سسر وفات پا چکے تھے ۔اور پانچ نندیں بیاہی گئی تھی ۔

دیکھنے میں کافی معقول اور مناسب گھر تھا لیکن آہستہ آہستہ حقیقت آشکار ہوئی ۔

میری پانچوں نندیں اپنے بچوں کی فوجوں سمیت آئے دن گھر آئی بیٹھی رہتی تھی اور شام کا کھانا کھا کہ اپنے اپنے خاوند کیلئے سالن تک لیکر جاتی تھیں۔

شروع شروع میں تو کافی برداشت کیا لیکن جب صبر اور زباں نے ساتھ چھوڑ دیا تو میں نے کہنا شروع کردیا کہ ایسا کرنا مناسب نہیں میں اکیلی پکاتی ہوں اور مجھے پندرہ پندرہ لوگوں کا روزانہ پکانا پڑتا ہے لیکن خاوند صاحب الٹا مجھ پہ چڑھ دوڑے کہ تم کم ظرف ہو ،کمینی طبعیت کی مالک ہو ،کسی کو کھلا کہ راضی نہیں۔ وہی روایتی خرافات۔ ۔ ۔

میں اب اللہ کو رو رو کہ دکھاؤں کہ اپنے ماں باپ کی اتنی لاڈلی اور یہاں ذلیل ہو رہی ہوں۔بابا دل کے مریض تھے لہذا انہیں بتا بھی نہیں سکتی تھی اور خاموش رہ نہیں سکتی تھی۔ کیونکہ صحت بہت خراب ہوتی جارہی تھی ۔

خاوند صاحب کبھی ساتھ نہ دیتے ،اماں جی کے رعب و احترام میں چُپ رہتے اور مجھے سے خفا خفا رہتے ہمیشہ ،کبھی مجھے ہنس کہ نہ بلاتے ہمیشہ جلی کٹی سناتے۔

دیورانی جیٹھانی جلتی پہ تیل ڈالتی اور مزید لڑائی چلتی رہتی

بجیا بیاہ کہ پردیس چلی گئی۔ بجیا جب جب پاکستان آتی مجھے ملنے ،میرے سسرال والے بجیا کی سلیقہ مندی اور خاوند کی خدمت کو دیکھ دیکھ کہ انکے قصیدے پڑھتے ،اب مجھے طعنے ملتے تھے کہ دیکھو اپنی بجیا کو کیسے غیروں کے گھر میں بھی اٹھ کہ چھ بجے اپنے خاوند کو بیڈ ٹی دیتی ہے اور ایک تم ہو جسے ہوش نہیں ہوتا جلدی اٹھنے کا۔

اب میں سوچتی تھی بجیا کے دل پہ کیا گزرتی ہوگی جب اُسے سگے والدین طعنے دیتے تھے؟ اب مجھے بجیا کی حالت سمجھ آتی تھی۔ اور بہت دُکھ ہوتا تھا۔

میرے خاوند کا کاروبار یکایک بہت کم ہوگیا جسکی وجہ سے وہ مذید چڑچڑے ہو گئے اور مجھے بلانا تک چھوڑ گئے۔ انکی لاپرواہی اور کام کی زیادتی کے باعث میں کافی بیمار رہنے لگی اکثر چکر آجاتے اور بے ہوش ہوجاتی ۔

بیماری کیوجہ سے سوکھ کہ کانٹا ہوگئی۔

ایک دن حسب معمول میں کچن میں کھانا بنا رہی تھی اور نند کے بچوں کو سکول تیار کرکہ بھیج رہی تھی جب میری اماں اچانک میرے گھر ملنے آگئی۔

میں خوشی سے اماں کے گلے لگ گئی لیکن اماں نے حیرانگی سے پوچھا

تمہیں اتنا تیز بخار ہے؟ اور تم کچن میں؟

میں بس کچھ بول نہ سکی اور آنکھوں سے آنسو گرگئے ۔

اماں نے میرا بازو پکڑا اور میری ساس سے خوب لڑائی کی ،میری نندیں بھی سنتی رہی ۔

اماں مجھے اپنے ساتھ لاہور لے آئیں اور مجھے فورا آئی سی یو میں داخل کروایا گیا ، ٹائفیڈ بگڑنے کیوجہ سے بخار دماغ کو چڑھ گیا تھا اور دماغ کی نسیں پھٹنے کا اندیشہ تھا ۔

ڈاکٹرز جواب دے چکے تھے،سارے گھر میں صف ماتم بچھ گیا۔ بجیا بھی پاکستان آگئی ،بجیا روزانہ نفل مان لیتی کہ یاللہ میری بہن کو بچانا ۔

دوسری طرف خاوند صاحب نے پلٹ کہ کوئی رابطہ نہ کیا ۔کہ میری مرضی کے بنا میری بیگم کو کیسے لے کے گئے ہیں؟

دن گزرتے گئے حالات بہتر ہو گئے اور میں ایک بار ہوش میں آگئی

اب میری اماں نے میرے خاوند کو فون کیا اور سارا حال احوال بتایا تو وہ الٹا میری امی پہ چڑھ دوڑے کہ ایک تو آپکی بیٹی کام چور تھی دوسرا آئے دن بیماری کا بہانہ لگائے رہتی تھی۔اماں نے بہت کہا لیکن وہ حسب معمول گرجتے برستے رہے

اماں اور ابا سر جوڑ کہ بیٹھ گئے اور میرے سسرال سے بڑے لوگوں کو بلوایا گیا اور الگ گھر کا مطالبہ کیا گیا جو کہ نامنظور ہوگیا ۔

میرے خاوند نے حسب معمول کاروبار کا رونا روتے رہے ۔

اماں سخت غصہ میں تھیں کہ میری بیٹی مرجاتی تم لوگوں کا کیا جاتا؟ تم تو نئی بیگم لے آتے اور ہم دوسری بیٹی کہاں سے لاتے؟

میرے خاوند نے اپنی چال چلی اور طلاق کی دھمکی دی ۔ میری ابا فورا کھڑے ہو گئے اور کہتے ،”ابھی طلاق دو فورا ،تمہیں بیٹی دی تھی ،بیچی نہیں”

میرے خاوند لڑتے بولتے واپس چلے گئے۔

اب جیسے ہی میرے خاوند اپنے گھر پہنچے تو میری ساس اور نندیں کہنے لگیں دفع کرو اس بیمارن کو ،نہ کام کی نہ کاج کی ،چوبیس گھنٹے بیمار

تم اسے طلاق دے دو اور ہم تمہارے لئے اس سے بھی اچھی اور خوبصورت بیوی لائیں گے۔

خاوند صاحب خود بتاتے ہیں کہ

”میرا دماغ یکایک پھٹنے کو آگیا کہ یہ سب لوگ چاہتے ہی نہیں کہ میرا گھر بسے،بس انکو اپنے کام اور خدمتوں کی غرض ہے ،میں بار بار اپنے جذبات کسی اور عورت سے منسلک نہیں کرسکتا ، اور اگر دوسری شادی کر بھی لی تو ساری زندگی پچھتاوے کے جہنم میں جلتا رہونگا”‘

میرے اماں ابو طلاق کے کاغذ تیار کروانے لگ گئے۔بجیا اماں ابا کو سمجھاتی تھی کہ کوئی بھی انکی بات نہیں مانتا تھا۔

اور بالآخر اللہ تعالی کی کرنی ایسی ہوئی تین دن بعد میرے خاوند واپس آگئے اور رو رو کہ پاؤں پکڑ کہ معافی مانگتے رہے کہ آئندہ ایسی غلطی کبھی نہیں ہوگی ۔میں جان گیا ہوں کہ میرے اپنے ہی میرا گھر تباہ کر رہے ہیں،

میری اماں سخت نالاں تھی لہذا وہ جلدی نہ مانی اور کہتی دیوار کھڑی کرو درمیاں میں اور سارا فسادی سسٹم ختم کرو ۔

خاوند صاحب کہتے میں یقین دلاتا ہوں کہ فساد یا زیادتی دوبارہ نہیں ہوگی۔

اور میں واپس اپنے گھر باعزت طریقے سے آئی اور میرے خاوند نے واضح کردیا سب پہ۔

آج سے صرف بیگم میری اپنی روٹی پکائے گی ،امی اور باقی سبکی روٹیاں اب دونوں بھابھیاں پکائیں گی باری باری سے اور جو نند بھی آئے گی وہ خود پکائے گی اور سارے برتن بھی دھوئے گی اور اماں کو بھی وہی کھلائے گی۔

لیکن جب سے یہ باتیں واضح ہو گئی ،میری نندیں بھی بہت کم کم آتی ہیں اب ،

اب سارا گھر بڑی ہنسی خوشی چل رہا ہے ،سچ کہتے ہیں

”خاوندکا انصاف زندگی سنوار دیتا ہے اور اسکی ناانصافی زندگی تباہ کردیتی ہے”

About admin

Check Also

کنواری سہاگن۔۔

مجھے کچھ کام ہے۔ رقیہ نے آٹھ سالہ اکبر کا ہاتھ پکڑ کے اپنی طرف …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *