ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ہم حج کرنے گئے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ بیت اللہ میں ایک مولوی صاحب روزانہ قرآن پاک کی ان آیات کی تشریح کیا کرتے تھے جن کا ترجمہ یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بوڑھے ہو کر رہیں، تو انہیں کسی موقعہ پر بھی اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان کے ساتھ احترام اور ادب کے ساتھ بات کرو ۔ نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھکے رہو اور دعا کیا کرو کہ : اے پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ بچپن میں مجھے پالا تھا۔“ (سورۃ بنی اسرائیل، پارہ نمبر ۱۵) اور بعض وقت بیان کرتے کرتے ان کی آواز لرز نے ، کانپنے لگتی اور الفاظ رک رک کر زبان سے نکلتے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہنے لگتیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا تو وہ بھی میری طرح سب حیرت زدہ ہیں کہ آخر ان آیات قرآنی کی تشریح میں مولوی صاحب پر اس قدر گریہ وزاری کیوں طاری ہو جاتی؟ اس کی ان سے ضرور وجہ دریافت کرنی چاہئے تا کہ ہمیں بھی کچھ نصیحت حاصل ہو۔ لہذا جب وعظ ختم ہو چکا تو ہم نے ان کو چائے پینے کے لئے کہا۔ ہمارے زیادہ اصرار کرنے سے مولوی صاحب مان گئے ۔ ہم حرم شریف سے باہر نکل کر ایک ہوٹل میں چائے پینے بیٹھ گئے۔ حج کے دنوں میں حرم شریف کے آس پاس جتنے ہوٹل ہوتے ہیں ، وہ اکثر دن رات ہی کھلے رہتے ہیں۔ غرض ہم بھی ایک ہوٹل میں جا کر چائے پینے لگے اور باتیں کرنے لگے۔ باتوں باتوں میں ہم
نے مولوی صاحب سے پوچھا مولانا صاحب کیا آپ ہمیں اتنا فرما ئیں گے اور اس پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالیں گے کہ ان آیات الہی کی تشریح میں جناب اتنے نمکین اور افسردہ کیوں ہوتے ہیں؟ مولانا صاحب نے اس طرح سے اپنا واقعہ بیان کرنا شروع کیا کہ میں کلکتہ کے قریب ایک گاؤں کا رہنے والا ہوں۔ میرے والدین شہر میں رہتے تھے اور میرے والد ایک پرائیوٹ کارخانے میں ملازم تھے۔ پڑھے لکھے تو معمولی سے تھے لیکن نہایت نیک اور خدا ترس آدمی تھے۔ میری عمر ابھی چار سال ہی کہ تھی کہ مجھے ایک اسلامی اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ میرے والدین مجھے دینی علوم کی تعلیم دلانا چاہتے تھے اس لئے میں نے اٹھارہ سال کی عمر میں عربی زبان سیکھ لی۔ میں دینی تعلیم کے دوران انگریزی بھی پڑھتا تھا ور والد صاحب کے ایک دوست کے مدر سے سے میں نے میٹرک یعنی دسویں جماعت کا امتحان پاس کر لیا۔ میری خواہش افسر بننے کی تھی۔ میں نے اپنے والد سے اس کا ذکر کیا۔ والد صاحب کو اس زمانے میں نوکری کے ۲۰۰ روپے ملتے تھے، جن سے پورے گھر کا خرچ چلانا پڑتا تھا اور آئندہ کے لئے فکر کرنی تھی میرے والد صاحب کا یہ خیال تھا کہ میں اب کوئی ملازمت کرلوں تا کہ گھر کا انتظام سنبھالنے میں آسانی ہو۔ لیکن میرا پکا ارادہ کالج میں داخل ہونے کا ہو چکا تھا۔ میں نے والد صاحب کی بے حد خوشامد کی اور ان کو منایا ۔ آخر کار والد صاحب راضی ہو گئے۔ میں نے ایک کالج میں داخلہ لے لیا۔ میری والدہ بڑی کفایت شعار اور عظمند تھیں۔ اپنے خالی وقت میں وہ موم بتیاں بنا کر اچھے خاصے پیسے حاصل کر لیتیں۔ اس طرح ان کو محنت تو بہت کرنی پڑتی لیکن وہ میری سب ضروریات پوری کرتیں۔ فیس تو والد صاحب دے دیتے تھے اور دوسری ضروریات کے لئے میری والدہ مجھے چپکے سے روپے بھیج دیتیں۔ مجھے معلوم تھا کہ والد صاحب بھی میرے اخراجات اور دوسرے بھائیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ڈیوٹی سے زیادہ وقت (اوور ٹائم) کام کرتے تھے۔ اس طرح ان کو زیادہ پیسے حاصل ہو جاتے اور ہمارا خرچ چلتا رہا اور . میں نے چھ سال میں ڈگری حاصل کر لی۔ میں نے ڈگری تو بے شک حاصل کر لی ، مگر اس کالج کی تعلیم کے دوران اور اس زمانے میں کالج کے ماحول کے رہن سہن نے میرے اسلامی شعار اور طریقے کو بالکل ہی بدل دیا اور میں اسلامیات کو بالکل ہی بھول چکا تھا۔ اس لئے یہ ماحول ہی نیا اور ایسا تھا کہ میں وہاں کا رنگ لئے بغیر نہ رہ سکا۔ میرا ذہن، میرے خیالات، جدید تعلیم و تربیت سے بے حد متاثر ہو چکے تھے۔ اب کیسا دین اور کیسے دین کی باتوں پر چلنا اور کیسی نماز ، روزہ کرنا۔ میرے حالات اور خیالات سب ہی بدل
چکے تھے۔ میں نے چھٹے سال پورے کالج میں اول نمبر کی کامیابی حاصل کی ۔ اس لئے درخواست دینے پر مجھے اس کالج میں ملازمت مل گئی ۔ اور میں ساڑھے تین سو ماہوار تنخواہ پانے لگا۔ چند سالوں میں میری تنخواہ پانچ سوروپیہ ماہوار ہوگئی۔ اب والدین نے میری شادی کی فکر کی ۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ کسی نیک اور دیندار لڑکی سے میری شادی ہو۔ جو گھر میں ایک اچھی بہو کی طرح رہے۔ لیکن میری خواہش یہ تھی کہ وہ آج کی نئی تہذیب اور نئی تعلیم سے واقف ہو تاکہ موجودہ دور اور اعلیٰ سوسائٹی میں کھپ سکے۔ ہر ایک کے ساتھ کھلے عام باتیں کر سکے، ننگے ڈانس دیکھ سکے ، اور ننگے ڈانس کر سکے ، سینہ تان کر بازاروں میں چل سکے اور ہر بے حیائی کے کام میں ترقی کر کے آگے بڑھ سکے۔ لہذا میں نے اپنی پسند کا ذکر اپنی ماں کے ذریعے سے اپنے والد صاحب سے کر دیا۔ لیکن انہوں نے پسند نہ کیا اور برامانا۔ لیکن مجھے نئی روشنی کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا تھا۔ ایسا بھوت سر پر سوار تھا کہ کہاں کا خدا کا خوف اور کہاں کا دین کا شوق نہ قرآن مجید سے محبت اور نہ نبی کریم ﷺ سے الفت ۔ ہر طرف سے نفس اور شیطان نے پوری طرح سے رنگ چڑ ھا دیا اور میں اپنی ضد پر قائم رہا۔ ماں باپ کی بات کسی طرح بھی میری عقل میں نہ آتی تھی اور نہ ہی میں ماننے کے لئے تیار تھا۔ بہر حال میں نے اپنے والدین کو بار بار اصرار کر کے راضی کر لیا۔ وہ میرے اصرار سے راضی ہو گئے۔ شاید اس وجہ سے کہ انہیں اندیشہ تھا کہ اگر وہ انکار کر دیں تو شاید میں اپنی من مانی کروں، اس خوف سے انہوں نے ہاں کر دی۔ لہذا ایک فیشن ایبل ، جاہل بے دین سے بے زور لڑ کی سے میری شادی ہو گئی ۔ شادی کو ابھی دو چار مہینے ہوئے تھے کہ والد صاحب کے کارخانے میں ایک گیس کی ٹنکی پھٹ جانے سے ان کی دونوں آنکھیں جاتی رہیں۔ اس لئے اب وہ کارخانے جانے سے معذور اور بے کار ہو گئے اور کام کے قابل نہ رہے۔ اور اب وہ گھر میں ہی رہنے لگے اور انکو کارخانے کی طرف سے ایک معمولی رقم معذوری الاؤنس کے طور پر ملنے لگا۔ میرے بیوی کو اسلامی تعلیم و تہذیب سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ وہ تو صرف آزاد خیال اور تیز مزاج عورت تھی ، جسے نہ خوف خدا اور نہ عشق مصطفیٰﷺ ۔ وہ کیا جانے کہ اسلام کیا ہے؟ وہ تو پہلے ہی دین سے جاہل مطلق تھی ۔ کچھ اس کی سہیلیوں نے اس کے کان بھر دیے کہ ارے دیکھو، ساس سسر کی خدمت کرنا تمہارا فرض نہیں، بلکہ ساس سسر تو تمہاری خدمت کے لئے ہیں، تم ان سے جو چاہے خدمت لینا۔ جولڑ کیاں جاہل گنوار اور بے عقل ہوتی ہیں، وہ اپنے ساس سسر کی خدمت کیا کرتی ہیں۔ تمہارا کوئی حق وق نہیں ان کی خدمت کرنے کا ۔ تم اپنے شوہر کی ہو کر رہنا بس ۔ اس وقت میں کسی انگریز سے کم نہ تھا۔ میرے دن رات صبح شام عیش و مزے میں گزرتے تھے۔ اب سوائے خواہشات نفسانی کے نشہ کے کچھ یا دہی نہیں تھا۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ میری محبوبہ بیوی میرے بوڑھے ماں باپ کی خدمت
سے نفرت اور پر ہیز کرتی ہے، تو میں اس پر ناراض ہوا۔ لیکن آہستہ آہستہ اس نے مجھ پر جادو کر دیا ، کہ میں اس کی ہر حرکت پر اظہار پسندیدگی کرتا تھا۔ میں اس کی تلخ مزاجی اور ڈانٹ ڈپٹ کو برا جانتا تھا۔ خواہ وہ میرے سامنے میرے والدین کو کچھ بھی برا بھلا کہتی رہتی ، لیکن میرے کان پر جوں نہ رینگتی اور مجھے ذرہ بھر بھی احساس اور برا معلوم نہ ہوتا تھا۔ اب وہ میرے والدین پر ہر آئے دن طرح طرح کے الزامات لگانے لگی ۔ لیکن کیا کرتا میں اب صرف نفس کا بندہ بن کر رہ گیا تھا اور روحانی موت مر چکا تھا۔ مجھے اس سے اتنی محبت ہو گئی تھی کہ میں اسے کچھ بھی نہ کہتا تھا ۔ حتی کہ زبان تک نہ اس کے سامنے ہلاتا۔ بس ہر وقت اسی کا کلمہ پڑھتا اور اسی کے محبت کے گن گاتا ، جو کچھ ہوتا پڑا دیکھتا رہتا ۔ پیارے والدین نے بے بس اور مجبور ولا چار اور نہایت تنگ آکر مجھے سے فریاد اور شکایت کی۔ آہ میری بدبختی ، تو میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ آپ کو غلط نہی ہے۔ میری بیوی ایسی نہیں ہے وہ بڑی عقلمند اور صاحب سلیقہ ہے۔ آپ کی عقل ٹھیک نہیں ہے۔ ایک روز کی بات ہے والد صاحب رات کو کسی ضرورت سے پانی لینے کے لئے اٹھے، تو نا بینا تو تھے ہی، ایک اسٹول سے ٹکرا گئے اور اسی اسٹول پر دودھ کا برتن رکھا تھا۔ وہ زمین پر گر گیا اور سارا دودھ زمین پر الٹ گیا۔ بس پھر کیا تھا ، بیگم صاحبہ اٹھیں اور ان کو بہت بری طرح للکارا۔ تمہیں شرم نہیں آتی چوری کرتے ہوئے، چھوٹے منے کا دودھ رکھا ہوا ہے اور چاہتے ہو چپکے سے خود پی لوں۔ خبر دار آئندہ ایسی حرکت کی ، اچھی طرح دودھ پینے کا مزا چکھا دوں گی۔ میری دکھی والدہ بھی جاگ رہی تھی ، انہوں نے بڑی نرم آواز سے کہا، نہیں بیٹی ایسا نہ کہو ، یہ تو پانی پینے اٹھے تھے ۔ سامنے اسٹول تھا ، دودھ کا برتن گر گیا۔ چپ رہ بڑھیا ، آگٸی باتیں بنانے اور تاویلیں کرنے ۔ مجھے پڑھاتی ہے، تجھے کچھ تمیز بھی ہے بات کرنے کی۔ بڑھی تجھ سے نمٹوں گی۔ دیکھ تو سہی جب تیری بھی خبر لوں گی ، دور رہو، میرے سے، خبردار! آئندہ جو میرے سامنے بڑبڑائی۔ تیری عقل گھسیا گئی ہے، کہتی ہے ایسا نہ کہو، اسٹول سے ٹکرا گئے ۔ میں جانتی ہوں انہیں چوری سے کھانے پینے کی عادت ہے۔ غرض میری بیوی نے انہیں بہت ہی بری طرح سے جھڑ کا اور ڈانٹ ڈپٹ کی اور میں پڑا پڑا یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ لیکن میں نے بیوی کو نہ روکا بلکہ اسے ایک لفظ بھی نہیں کہا کہ یہ تو ان سے کیا کہتی اور کیوں کہتی ہے۔ اسے ٹوکہ تک نہیں ۔ تھوڑے دنوں کے بعد ایک دن میرے ماموں آئے اور میرے والد اور والدہ کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ بیوی کہیں باہر گئی ہوئی تھی۔ جب اسے آنے پر پتہ لگا تو اس نے اطمینان کا سانس لیا کہ شکر ہے سر سے بوجھ اترا اور کہا کہ اچھا ہوا روز روز کی کل کل سے نجات ملی۔ اس واقعہ کو تین سال گزر گئے۔ اور ایک بچہ کی پیدائش کے بعد میری بیوی کا انتقال ہو گیا۔ بس میرے لئے بہت ہی مصیبت کا سامنا تھا۔ بیوی کا مرنا کیا تھا، میری زندگی سنسان ہوگئی اور اکثر میں کھویا کھویا سا رہنے لگا۔ میرے ایک بہت ہی مخلص دوست تھے ، انہوں نے جلد ہی ایک غریب گھرانے میں میری شادی کرا دی۔ اور یہ میری بیوی حافظ قرآن نہایت ہی نماز روزہ اور قرآن مجید کی تلاوت کی پابند ، بڑی ہی دیندار اور میری ہر طرح سے فرمانبردار تھی۔ وہ اب بھی زندہ اور میرے گھر آباد ہے۔ جب میں فکر آخرت سے بے فکر ہو کر بستر پر پڑا کھیلوں کے میچ دیکھ کر زندگی کے بہترین وقت ضائع کر رہا ہوتا ہوں جس کی مجھ سے باز پرس قیامت کے دن کی جائے گی۔ تو وہ قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوتی ہے۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں چار پائی پر بیٹھا تھا اور بیوی قرآن مجید کی تلاوت کر رہی تھی کہ اچانک وہ اس آیت پر پہنچی کہ جس کی تلاوت و تشریح روزانہ آپ مجھے سے سن رہے ہیں تو میری آنکھوں کے سامنے وہ تمام واقعات آگئے جو پیچھے گزر چکے تھے
اور میرے ساتھ میرے ماں باپ نے جو سلوک کیا تھا اور انہوں نے جو زحمت و تکلیف میرے لئے گوارا کی تھی ، تو میری زبان سے یہ بے ساختہ نکل گیا کہ ہائے میرے ماں باپ! اور میں ہوش میں نہ رہا۔ غرض اب اتنے عرصے کے بعد مجھے اپنے ماں باپ کی یاد آئی کہ زمانہ دراز گزر گیا ۔ ہائے افسوس ! میری آنکھوں سے آنسو آ گئے ۔ میری بیوی دوڑی ہوئی آئی اور سمجھی کہ شاید مجھے کوئی تکلیف ہوگئی ہے۔ لیکن اس کے بار بار دریافت کرنے پر میں نے اسے پورا واقعہ جلدی سنا دیا۔ اب مجھے بڑی بے چینی ہوئی کہ میں اپنے والدین کو کیسے پاؤں؟ میں دوسرے دن ہی اپنے ماموں کے ہاں گیا۔ لیکن وہاں پہنچ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ والدین کئی مہینوں پہلے گھر جانے کے بہانے یہاں سے روانہ ہو چکے ہیں۔ بس اتنا سنتے ہی میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ ہائے بڑھاپے اور نظر کے نہ ہونے کی حالت میں کہاں گئے ہوں گے۔ میں فورا ہی اپنے والد کا فوٹو لے کر (جو کارخانہ میں کھینچا گیا تھا ) قریب ہی تھانے میں گیا اور فوٹو دے کر رپورٹ لکھوائی۔ اور کئی اخباروں میں بھی فوٹو کے ساتھ خبر چھپوائی اور ادھر ادھر کئی آدمیوں کو روانہ کیا۔ اب مجھے رات بھر نیند نہیں آتی تھی اور ہر وقت اسی فکر میں رہتا کہ کسی طرح بھی میرے والدین مل جائیں۔ میں نے اللہ سے خوب گڑگڑا کر توبہ کی اور دعائیں کیں کہ الہی !میرے ماں باپ کو واپس لوٹا دے۔ تیسرے روز ایک پولیس والا آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ جو شکل آپ نے لکھوائی تھی بالکل اس سے ملتی جلتی شکل کا ایک بوڑھا آدمی ایک قبر میں بیٹھا فاتحہ پڑھ رہا تھا۔ میں دوڑتا ہوا قبرستان پہنچا تو ، تو معلوم ہوا کہ وہ میرے چچا تھے۔ میں ان کے قدموں پر گر پڑا اور اپنے والدین کو دریافت کرنے لگا۔ چچا نے نظر اٹھائی اور دو سامنے والی قبروں کو مخاطب کر کے پکارا کہا بھائی اکرم! اور بھا بھی زبیدہ ! دیکھو تمہارا لاڈلا افسر آیا ہے۔ اکرم میرے والد کا زبیدہ میری ماں کا نام تھا۔ چاچا جان کے منہ سے یہ بات سن کر میں اوندھے منہ قبر پر گرا اور پھوٹ پھوٹ کر زار و قطار رونے لگا۔ پھر کیا بنتا ہے۔۔ پھر پچھتائے ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت بس اتنا کہہ کر مولانا صاحب خاموش ہو گئے ، تو میں نے مولانا کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ بزرگوں نے سچ کہا ہے کہ: انسان سے بعض ایسی غلطیاں ہو جاتی ہے جو ساری عمر کے لئے افسوس پیدا کر دیتی ہیں۔ مگر نادم ہونے والوں کے لئے ، اللہ تعالیٰ کے خوف سے عاری لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے ، بلکہ اور زیادہ ظالم ہو جاتے ہیں۔ حاصل ….. معلوم ہوا کہ والدین کا مقام بہت اونچا ہے بیشک جو اپنے والدین کی خدمت کرلے گا وہ دنیا و آخرت میں کامیابی و فلاح پائے گا ، اس واقعہ سے ہم سب کو عبرت پکڑنی چاہئے اور اپنی طاقت سے بڑھ کر والدین کی خدمت کرنی چاہئے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العلمین۔ ( بحوالہ محسنہ کائنات ماں ہے)